شاق گذرتی ہے۔ وہ تمہیں سربلند دیکھنے کے لئے مضطرب ہے اور وہ تم پر بے حد مہربان اور شفیق ہے۔} تو جس رسول کو اپنی امت سے یہ عشق تھا کیا وہ برداشت کر سکتا تھا کہ ساری امت آنے والے نبی سے غافل رہ کر جہنم کا ایندھن بن جائے۔ یقینا کسی نبی کی بعثت مقدر ہی نہیں تھی۔ ورنہ حضورﷺ کی وحی میں لازماً اس کا ذکر ہوگا۔
۳… ’’اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم (النسائ:۵۹)‘‘ {اے مسلمانو! خدا، رسول عربی اور اپنے فرماں روا کی جو تم میں سے ہو۔ اطاعت کرو۔} اگر رسول عربیﷺ کے بعد کسی نبی کو بھی آنا ہوتا تو اﷲ اس کی اطاعت کی بھی ہدایت نافذ کرتا۔ اولیٰ الامر کی اطاعت کاحکم دینا اور کسی نبی کا ذکر تک نہ کرنا۔ صاف اعلان ہے۔ اس حقیقت کا کہ حضورﷺ آخری نبی تھے۔ ۴… ’’آمنوا امنو باﷲ ورسولہ والکتاب الذی نزّل علیٰ رسولہ والکتب الذی انزل من قبل (النسائ:۱۳۶)‘‘ {اے لوگو! خدا ورسول عربیؐ پہ ایمان لانے کے بعد اس کتاب کو جو رسول عربی پہ اتری ہے اور ان کتابوں کو جو پہلے اترچکی ہیں مانو۔} یہاں پہلی کتابوں پر ایمان لانے کا حکم تو موجود ہے۔ لیکن بعد میں آنے والی کسی وحی کا ذکر موجود نہیں۔
۵… ’’والمؤمنون یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک (النسائ:۱۶۲)‘‘ {مؤمن وہ ہے جو اے رسول تیری وحی اور تجھ سے پہلے انبیاء کی وحی پر ایمان لائے۔}
غور کا مقام ہے کہ جس اﷲ نے حضورﷺ اور گذشتہ انبیاء کی وحی پر ایمان لانے کا سومرتبہ حکم دیا۔ کیا وہ صرف ایک مرتبہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ’’وما ینزل من بعدک‘‘ کہ مؤمن آنے والے انبیاء پہ بھی ایمان لائے گا؟ کیوں نہیں کہا؟ کیا اﷲتعالیٰ کو ہماری گمراہی مقصود تھی؟ کیا کسی نبی پہ ایمان لانا اس قدر مشکل فرض تھا کہ اﷲتعالیٰ نے اسے صیغہ راز ہی میں رکھنا مناسب سمجھا۔ تاکہ لوگ اسلام سے منحرف نہ ہو جائیں؟ جو مسلمان پہلے ہی ڈیڑھ لاکھ انبیاء پہ ایمان رکھتا ہے۔ اسے صرف ایک اور نبی کو تسلیم کرنے میں کیا تکلیف ہوسکتی تھی؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نبی کی آمد مقدر ہی نہیں تھی۔ ورنہ ساڑھے چھ ہزار آیات نازل کرنے والا خدا کم ازکم ایک آیت تو اس موضوع پہ بھی نازل کرتا۔