۶… ’’جب اسلام کا آفتاب نصف النہارپر تھا اور اس کی بیرونی حالت گویا حسن میں رشک یوسف تھی اور اس کی بیرونی حالت اپنی شوکت سے اسکندریۂ رومی کو شرمندہ کرتی تھی۔‘‘ (شہادت القرآن ص۱۲، خزائن ج۶ ص۳۰۸)
یونان کے مشہور فاتح کا نام اسکندر تھا۔ اسکندریہ نہیں تھا۔ اسکندریہ مصر کا مشہور شہر ہے۔ بحیرہ روم کے ساحل پر جس کی بناء اسکندر اعظم نے ڈالی تھی۔
’’میں زمین کی باتیں نہیں کہتا۔ کیونکہ میں زمین سے نہیں ہوں۔ بلکہ میں وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے منہ میں ڈالا ہے۔‘‘ (پیغام صلح ص۴۷، خزائن ج۲۳ ص۴۸۵)
۷… حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے۔ ’’سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں۔‘‘
(آسمانی فیصلہ ص۵، خزائن ج۴ ص۳۱۵)
’’قرآن مجید میں آنے والے مجدد کا بلفظ مسیح موعود کہیں ذکر نہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۶۴، خزائن ج۶ ص۳۶۰)
اور پھر فرماتے ہیں۔ ’’لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیش گوئیاں پوری ہوتیں۔ جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ وہ اس کو کافر قرار دیںگے اور اس کے قتل کے لئے فتوے دئیے جائیںگے۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۴۰۴)
قرآن میں ایسی پیش گوئی کہاں ہے؟ دو سو سے زیادہ مرتبہ پڑھ چکا ہوں ایک لفظ تک مسیح وعلماء کے تصادم کے متعلق میری نظر سے نہیں گذرا۔ کیا کوئی احمدی عالم کوئی ایسی پیش گوئی دکھا کر میری جہالت کو رفع فرمائیںگے؟
۸… علمائے تولید اس حقیقت کو واضح کر چکے ہیں کہ حمل سے پہلے رحم کے سامنے ایک انڈا (انگریزی میں ادوم کہلاتا ہے) منتظر رہتا ہے۔ جونہی مخالطت کے وقت ماء الحیات کا کوئی ذرہ (جسے انگریزی میں سپرم کہتے ہیں) اس انڈے سے مل جاتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کو مضبوط پکڑ لیتے ہیں۔ پھر سرک کر رحم میں چلے جاتے ہیں۔ رحم کا منہ بند ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ولادت تک کوئی سپرم قطعاً رحم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ لیکن مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔