مرزامحمود احمد قادیانی کہتے ہیں۔ ’’حضرت مرزاصاحب کی کتب بھی جبریلی تائید سے لکھی گئیں۔‘‘ (الفضل ۱۰؍جنوری ۱۹۲۱ئ)
یعنی جبرائیل علیہ السلام بھی تاریخ کے معمولی معمولی واقعات سے بے خبر تھے۔
۳… مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کی نسبت آواز آئے گی کہ ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے۔ جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔‘‘ (شہاد القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ ص۳۳۷)
اٹھائیے بخاری اور ازاوّل تا آخر ہر سطر پڑھ جائیے۔ یہ حدیث نہیں ملے گی۔ ’’میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۶۳، خزائن ج۳ ص۴۰۳)
۴… حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اﷲ نے حکم دیا تھا۔ اگر قوم میں کوئی جھوٹا نبی پیدا ہو جائے تو اسے قتل کر دو۔ ’’لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے۔ جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔‘‘
(استثناء باب ۱۸، آیت ۲۰)
لیکن مرزاقادیانی دلیل افتراء کے سلسلے میں آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ ’’لیکن وہ نبی جو ایسی شرارت کرے کہ کوئی کلام میرے نام سے کہے جو کہ میں نے اسے حکم نہیں دیا کہ لوگوں کو سناتا اور وہ جو کلام کرے دوسرے معبودوں کے نام پر وہ نبی مر جائے گا۔‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴، ص۸،۹، خزائن ج۱۷ ص۴۷۴،۴۷۵)
کجا یہ حکم کہ ’’قتل کیا جائے‘‘ اور کجا یہ خبر کہ ’’مر جائے گا‘‘ بائبل کے تمام تراجم جو آج تک دنیا میں ہوچکے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ یہ ترجمہ کہیں نہیں ملے گا۔ مرزاقادیانی عبرانی زبان سے ناآشنا تھے اور بائبل کے تراجم افراد نے نہیں بلکہ عبرانی علماء کی پوری جماعتوں نے برسوں میںکئے تھے۔ ان لوگوں نے ہر ہر لفظ کی پوری چھان بین کی تھی۔ ان کے ترجمہ کو مسترد کرنے کے لئے زبردست لغوی دلائل کی ضرورت ہے جو مرزاقادیانی نے پیش نہیں فرمائے اور بغیر ازسند نیا ترجمہ پیش کر دیا۔ ظاہر ہے کہ ایسا ترجمہ قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ’’وما ینطق عن الہویٰ۰ ان ہوا الا وحی یوحیٰ‘‘ مسیح موعود کوئی بات اپنے پاس سے نہیں کہتا۔ بلکہ اس کا کلام خدائی وحی ہے۔ (اربعین نمبر۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۳۸۵)