سے والناس تک پڑھ جائیے۔ حضورﷺ نے کہیں بھی اپنی رسالت کے ثبوت میں کوئی معجزہ نہیں دکھایا اور نہ کوئی تحدی کی۔ اگر کہا تو صرف اتنا ہی کہ: ’’میں ولادت سے تمہارے درمیان رہ رہا ہوں۔ میری زندگی پہ نظر ڈالو۔‘‘
یا یہ کہ: ’’اگر اس قرآن کے منجانب اﷲ ہونے میں کوئی شک ہے تو ایک سورۃ ہی بنالاؤ۔‘‘
لیکن دوسری طرف مرزاقادیانی کی بہتّر(۷۲) تصانیف
۱… اثبات نبوت۔
۲… نشانات۔
۳… بشارات شکستہ کی تاویلات۔
۴… انعامی اشتہارات۔
۵… تازہ پیش گوئیوں۔
سے لبریز ہیں۔ رسول کا کام ابلاغ رسالت ہے نہ کہ بشارات وتاویلات میں الجھ کر رہ جانا۔
پنجم… بائبل میں گذشتہ انبیاء کے چھیاسٹھ صحائف شامل ہیں۔ پھر بدھ، زرتشت، کرشن اور سقراط کی تعلیمات بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ان سب کا مطالعہ فرمائیے۔ آپ کو ان میں از ابتداء تاانتہاء بلند اخلاقی ہدایات۔ سیاسی ضوابط اور معاشی فلاح کے لئے بے بہا گر ملیںگے۔ یہی حال قرآن حکیم کا ہے۔ آپ اس میں عبادات، اقتصادیات، سیاسیات اور مطالعہ کائنات پر مکمل، روشن اور لافانی ہدایات پائیںگے۔ یہاں پیش گوئیوں کا جھگڑا نہیں۔ تاویلات کا خرخشہ نہیں۔ انعامی اشتہارات کا چرچا نہیں۔ قیصر وکسریٰ کی خوشامد نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ صرف انسانی اصلاح سے کام ہے وبس، اور دوسری طرف مرزاقادیانی کے الہامات میں جو بیس اجزاء پہ مشتمل ہیں۔ حیات انسانی کا کوئی لائحہ عمل نہیں ملتا۔ ان میں نہ صوم وصلوٰۃ کا ذکر ہے نہ حج وزکوٰۃ کا نہ مسائل نکاح وطلاق کا نہ وراثت ارضی وتمکن فی الارض کا۔ نہ جہاد وصدقات کا۔ نہ حلال وحرام کا۔ ’’الا ماشاء اﷲ‘‘ ان میں ہے کیا؟ ستر فی صدی مسیح موعود کی تعریف۔
تو میرا بیٹا ہے۔ تیری نسل تجھ سے شروع ہوگی۔ تیری عمر اسی کے قریب ہوگی۔ میں اپنی نعمتیں تم پر مکمل کر دوںگا۔ فتح قریب ہے۔ تم کامیاب رہو گے اور اعداء ذلیل ہوںگے۔ تم ہمارے ہاں بہت بلند ہو۔ تم مسیح ابن مریم ہو۔ تم جیسا موتی ضائع نہیں ہوسکتا۔ خدا تجھے بچائے گا۔ ہم نے تجھے کوثر دیا۔ تم پر ہماری برکات نازل ہوںگی۔ تم الخلیفتہ السلطان ہو۔ تمہیں ملک عظیم دوںگا۔