دوم… مزید حیرت اس امر پر ہے کہ آپ کے الہامات میں عموماً قرآنی آیات ہیں۔ جن میں کہیں کہیں کوئی نیا پیوند لگا ہوا ہے۔ یہ قرآنی آیات دوبارہ کیوں اتاریں۔ کیا یہ قرآن سے غائب ہو چکی تھیں یا اﷲ کے پاس عربی الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوچکا تھا؟
سوم… پھر یہ کیا بات ہے کہ یہ پیوند فصاحت کے لحاظ سے قرآنی آیات کے ہم سطح نہیں۔ مثلاً: ’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق وتہذیب الاخلاق‘‘ یہ تہذیب الاخلاق کا جوڑ کس قدر غیر قرآنی واجنبی ہے؟
’’انت منی بمنزلۃ ولدی‘‘ {تو میرے بیٹے کی جا بجا ہے۔}
یہ منزلت کا استعمال خالص پنجاب قسم کا ہے۔ اس الہام سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ کے ہاں اولاد بھی ہے۔ اسے اپنی اولاد سے گہری محبت ہے اور وہ مسیح موعود سے کہہ رہا ہے کہ مجھ کو تجھ سے اتنی ہی محبت ہے جتنی اپنے بیٹے سے۔ اﷲ کی کوئی اولاد نہیں۔ جب مشبہ بہ ہی مفقود ہے تو پھر یہ تشبیہ کیسے صحیح ہوئی؟ اس کی مثال یوں ہے کہ زید عمر سے کہے۔ ’’میں تجھے اتنا ہی پسند کرتا ہوں جتنا اپنی تیسری آنکھ کو۔ تیسری آنکھ ہوتی ہی نہیں۔ اس لئے یہ تشبیہ غلط ہے۔‘‘
عربی زبان میں مؤنث ومذکر کے لئے جدا جدا افعال ہیں۔ اگر مخاطب مرد ہو تو کہیں گے قل (کہہ) مونث ہوتو (قولی) افعل (تو مرد یہ کام کر) افعلی (تو عورت یہ کام کر)
لیکن ایک الہام میں یہ تمیز قائم نہیں رکھی گئی۔ قرآن کی ایک آیت تھی۔ ’’یا آدم اسکن‘‘ آدم مرد تھا۔ اس کے لئے اسکن ہی صحیح تھا۔ لیکن مرزاقادیانی کے ایک الہام میں مخاطب عورت ہے۔ اور فعل مذکر۔
’’یا مریم اسکن‘‘ مریم مؤنث ہے۔ اس لئے اسکنی چاہئے تھا۔ اگر یہ دو فقرے
۱… ماسی خدا بخش روٹی کھا رہی ہے۔
۲… بہن زینت بیگم چلا گیا ہے۔
غلط ہیں تو پھر ’’یا مریم اسکن‘‘ کیونکر صحیح ہوا؟ میرے سامنے اس وقت اس طرح کی بے قاعدگیوں اور بوالعجبیوں کی ستر سے زیادہ مثالیں پڑی ہیں۔ جنہیں میں خوف طوالت سے نظر انداز کرتا ہوں۔
چہارم… جب کفار نے حضورﷺ سے معجزات طلب کئے تو آپؐ نے فرمایا۔ ’’ہل کنت الا بشرا رسولا (بنی اسرائیل:۹۳)‘‘ {کہ میں تو صرف انسان ہوں اور رسول بھی۔} مطلب یہ کہ میرا کام ابلاغ وحی ہے۔ کرامات ومعجزات دکھانا نہیں۔ سارے قرآن کو الحمد