اور باقی بشارات وغیرہ تاریخ انسانی کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ اﷲ نے ایک رسول بھیج کر الہام کی ساری مشینری اس کے اوصاف تراشنے پہ لگادی اور مخلوق کو وہ بالکل بھول گیا۔
یہ تو مرزاقادیانی کی نوازش خاص سمجھئے کہ آپ نے اپنے کچھ اوقات اصلاح اخلاق کے لئے بھی وقف فرمائے اور چند صفحات تطہیر اخلاق پر بھی لکھ ڈالے۔ ورنہ خدا نے تو ۱۸۶۵ء سے لے کر ۱۹۰۸ء تک شاید ہی کوئی الہام اصلاح خلق کے لئے نازل کیا ہو۔
ششم… مرزاقادیانی کا اردو اسلوب تحریر مولویانہ تھا۔ ان معنوں میں کہ روانی وسلاست کاخیال قطعاً نہیں رکھتے تھے۔ علمائے مکاتب کی طرح بھاری بھاری الفاظ تووالی اضافات کے ساتھ استعمال فرماتے تھے۔ حشوو زوائد سے اجتناب نہیں کرتے تھے۔ (تفصیل آگے) حروف عطف کی بھرمار سے جملے کا حلیہ بگاڑ دیتے تھے۔ اجزائے جملہ کو شاذونادر ہی صحیح مقامات پہ رہنے دیتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ بعض اوقات ناکافی الفاظ کی وجہ سے بات مہمل سی ہو جاتی تھی۔
حیرت ہے کہ یہی تمام اوصاف ان الہامات میں بھی پائے جاتے ہیں جو اردو، فارسی یا انگریزی میں آپ پہ نازل ہوئے۔ ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔
۱… ’’بہت سے سلام میرے تیرے پر ہوں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۲، خزائن ج۲۲ ص۱۰۵)
یہ مضمون بہتر صورت میں بھی ادا ہوسکتا تھا۔ مثلاً: ’’تجھ پہ لاکھوں سلام… تجھ پہ میرا سلام‘‘ وغیرہ۔
فقرے کی موجودہ بناوٹ کافی مضحکہ خیز ہے۔ ’’بہت سے‘‘ یہاں ’’سے‘‘ کا کون سا موقعہ ہے؟ ’’میرے سلام‘‘ کی جگہ ’’سلام میرے‘‘ کیوں؟ تقدیم مضاف الیہ کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ ’’تجھ پہ‘‘ کی جگہ ’’تیرے پر‘‘ مہمل ہے۔ ’’تیرا‘‘ ضمیر اضافت ہے اس کے ساتھ مضاف الیہ کا ہونا ضروری ہے۔ مثلاً تیرا کمرہ، تیری کتاب، تیرے بھائی وغیرہ۔ اہل زبان نے ’’تیرے نفس‘‘ اور ’’میرے نفس‘‘ کے لئے ’’تجھ‘‘ اور ’’مجھ‘‘ کے الفاظ رائج کر رکھے ہیں۔ اس لئے:
یہ غلط ہیںاور یہ صحیح ہیں
۱…وہ میرے کو کہتا تھا۔
۱…وہ مجھ کو کہتا تھا۔
۲…وہ تیرے کو بلاتا ہے۔
۲…وہ تجھ کو بلاتا ہے۔
۳…میں نے قلم تیرے کو دے دیا تھا۔
۳…میں نے قلم تجھ کو دے دیا تھا۔
۴…تیرے پر سلام۔
۴…تجھ پہ سلام۔