سر پر ڈال لیا۔ درحقیقت یہ وہ کام ہے جس کا شکر گذاری سے استقبال کرنا دانشمند رعایا کا فرض ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۱، خزائن ج۱۹ ص۱)
جناب دانشمند رعایا کا فرض تو بتادیا کہ وہ ٹیکہ کی تجویز اور بندگان خدا کی بہبودی پر گورنمنٹ عالیہ کا شکریہ ادا کرے۔ لیکن یہ نہ فرمایا کہ اس کا رویہ آپ کی ہستی گرامی کے متعلق کیا ہو کہ جن کی دعا سے ملک میں طاعون پھیلا۔ ’’تاکہ میرے دشمن نیست ونابود ہوں۔‘‘
سنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام تمام کائنات کے لئے رحمت بن کر آتے ہیں۔ ان کا کوئی دشمن نہیں ہواکرتا۔ وہ سب کا بھلا چاہتے ہیں۔ وہ سب سے محبت کرتے ہیں۔ وہ سب کو گلے لگاتے ہیں۔ ’’میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔‘‘ (اربعین نمبر۱ ص۲، خزائن ج۱۷ ص۳۴۴)
کیا مہربان والدہ اپنے بچوں کو طاعون میں پھنسانے کے لئے دعائیں کیا کرتی ہیں؟ اور ان کے نیست ونابود ہونے پہ خوش ہوتی ہے؟ اگر آپ حقیقتاً دنیائے انسانی پر والدہ سے زیادہ مہربان تھے تو پھر یہ کیوں کہا۔ ’’مبارک ہے وہ خدا جس نے دنیا میں طاعون بھیجا۔ تاکہ ہم بڑھیں اور پھولیں اور ہمارے دشمن نیست ونابود ہوں۔‘‘
سوم… کیا آپ کے پیرو محفوظ رہے؟ نہیں۔
۱… ماسٹر محمد دین (گھر میں جو رہتا تھا تو پیروہی ہوگا) کو گلٹی نکلی۔
۲… آپ خود تسلیم فرماتے ہیں کہ آپ کے پیرو بھی طاعون کا شکار ہوئے۔
ہماری جماعت میں سے بعض لوگوں کو طاعون سے فوت ہوجانا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ آنحضرتﷺ کے بعض صحابہ لڑائی میں شہید ہوئے تھے۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۵۶۸)
’’اگر ایک آدمی ہماری جماعت میں مرتا ہے تو بجائے اس کے سویا زیادہ آدمی ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۵۶۸)
کیوں داخل ہوتا ہے؟ اس کی وجہ حکومت ہند کی زبانی سنئے۔
"One Great Stimulus for Conversion has been the assertion of the founder that all those owing allegiance to him would ascape the scourge of