حضرت مسیح علیہ السلام بیسیوں پیرایوں میں ایک پرجلال رسول کی آمد کا اعلان کررہے ہیں۔ ’’اس کے بعد میں تم سے بہت سے باتیں نہ کروںگا۔ کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے۔‘‘
(یوحنا باب۱۴ آیت۳۰)
لیکن قرآن حکیم میں کسی آنے والے نبی کا اشارہ تک موجود نہیں۔ بلکہ حضورﷺ کو خاتم الانبیاء قرار دینے کے بعد تقریباً ایک سو آیات میں اس حقیقت کو باربار دہرایا ہے کہ اب قیامت تک کوئی اور وحی نازل نہیں ہوگی۔ تمام آیات کو یہاں درج کرنا دشوار ہے۔ اس لئے چند ایک ملاحظہ فرمائیے۔
۱… سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات میں مؤمنوں کی تعریف یہ بتائی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان لانے کے بعد صلوٰۃ وزکوٰۃ پر کاربند ہوتے ہیں اور ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وباآلاخرۃ ہم یوقنون (البقرہ:۴)‘‘ {وہ اس وحی پہ ایمان لاتے ہیں جو تم پر نازل ہوئی۔ جو تم سے پہلے انبیاء کو دی گئی اور پھر قیامت پہ ایمان لاتے ہیں۔}
غور کرو کہ حضورﷺ اور قیامت کے درمیان کسی وحی کا ذکر موجود نہیں۔ مسلمان کی تعریف صرف اتنی ہی بتائی ہے کہ وہ حضورﷺ اور سابق انبیاء کی وحی پر ایمان لانے کے بعد قیامت پر یقین رکھتا ہو۔ اگر حضورﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد مقرر ہوتی تو جس اﷲ نے صلوٰۃ وزکوٰۃ پر اندازہ ڈیڑھ سو اور مطالعہ کائنات پر ساڑھے سات سو آیات نازل کیں۔ جس نے زمین پہ چلنے، گفتگو کرنے، نکاح، طلاق، وضو، قربانی، تجارت اور قرض جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل کو کھول کھول کر بیان کیا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ وہ امت مسلمہ کو ایک نبی کی آمد سے غافل رکھتا؟ اور حضورﷺ کے بعد صرف قیامت پہ ایمان لانے کا حکم دیتا؟ جس اﷲ نے پہلے انبیاء کو باربار تاکید کی تھی کہ بعد میں آنے والے انبیاء پر بھی ایمان لانا اور جن کے صحائف اس قسم کی پیش گوئیوں سے لبریز ہیں۔ وہ اﷲ مسلمانوں پر یہ ظلم نہیں کرسکتا تھا کہ پہلے تو حضورﷺ کو خاتم النبیین قرار دیتا۔ پھر ایک سو آیات میں انہیں حضورﷺ اور پہلے انبیاء کی وحی پر ایمان لانے کے بعد قیامت پہ یقین رکھنے کی ہدایت کرتا۔ ایسے لوگوںکو ’’اولئک علیٰ ہدی من ربہم واولئک ہم المفلحون (البقرہ:۵)‘‘ ہدایت یافتہ وناجی قرار دیتا ہے اور پھر چپکے سے ایک رسول بھی بھیج دیتا۔
۲… حضور علیہ السلام کو اپنی امت سے عشق تھا۔ ’’عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم (التوبہ:۱۲۸)‘‘ {محمدؐ کو تمہاری تکلیف سخت