مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’قرآن شریف کی قرآن شریف ہی سے تفسیر کرو اور دیکھو کہ وہ ایک ہی معنی کا التزام رکھتا ہے یا متفرق معنی لیتا ہے اور اقوال سلف وخلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں اور ان کے اختلاف کی حالت میں وہ گروہ حق پر ہوگا۔ جن کی رائے قرآن کریم کے مطابق ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۲ ص۵۳۸، خزائن ج۳ ص۳۸۹)
’’غرض برخلاف اس متبادر اور مسلسل معنوں کے سوا جو قرآن شریف سے… اوّل سے آخر تک سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نئے معنی اپنی طرف سے گھڑ لینا یہی تو الحاد اور تحریف ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۲ ص۷۴۵، خزائن ج۳ ص۵۰۱)
’’کسی قرآنی آیت کے معنی اگر کریں تو اس طور سے کرنے چاہئے کہ دوسری قرآنی آیتیں ان معنوں کی مؤید اور مفسر ہوں۔ اختلاف اور تناقض نہ ہو۔ کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کے لئے بطور تفسیر کے ہیں۔‘‘
(آریہ دھرم (نوٹس بنام آریہ صاحبان وپادری صاحبان)ص۲، خزائن ج۱۰ ص۸۰)
مرزاقادیانی کے ان ارشادات سے ہمیں سوفیصدی اتفاق ہے۔ آئیے! اب یہ دیکھیں کہ قرآن کے دیگر مقامات سے خاتم کی کون سی تفسیر مستنبط ہوتی ہے۔ اگر ہم صحائف اولیٰ پہ نظر ڈالیں تو ہمیں جابجا آنے والے انبیاء کے متعلق بشارات ملتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ میں ایک رسول کے ظہور کی دعاء مانگ رہے ہیں۔ ’’ربنا وابعث فیہم رسولا (البقرہ:۱۲۹)‘‘ {اے اﷲ تو اہل مکہ کی طرف رسول بھیج۔} حضرت موسیٰ علیہ السلام مسلسل کسی نبی کی بشارت سنا رہے ہیں۔ ’’خداوند تیرا خدا وند تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔‘‘ (استثناء باب۱۸ آیت۱۵)
حضرت یسعیاہ ایک امی نبی کی خبر دے رہے ہیں۔ ’’وہ کتاب ایک ان پڑھ کو دیں اور کہیں کہ پڑھ اور وہ کہے میں تو ناخواندہ ہوں۔‘‘ (یسعیاہ باب۲۹ آیت۱۲)
تورات مقدس خداوند کا جلال پھر وادی فاران میں دیکھ رہی ہے۔ ’’خداوند سینا سے آیا۔ شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ان کے لئے ایک آتشیں شریعت تھی۔‘‘ (استثناء باب۳۳ آیت۳۱)
حضرت زکریا علیہ السلام ایک نجات دہندہ کا ذکر فرمارہے ہیں۔ ’’اے یروشلم کی بیٹی تو خوب للکار کہ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے ۔ وہ صادق ہے اور نجات دینا اس کے ذمے ہے۔‘‘
(زکریا باب۹ آیت۹)