اپنی تبدیلی کرنے پر قادر ہے۔ فیصلہ ناطقہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے برخلاف کرنا کذب یا عہد شکنی میں داخل نہیں ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۱۰ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۱۰)
دوم… کہ ’’گو آتھم بظاہر زندہ تھا لیکن دراصل مرچکا تھا۔ آتھم نے اپنی کمال سراسمیگی سے پیش گوئی کی میعاد میں دنیا پر ظاہر کر دیا کہ وہ پیش گوئی کی عظمت سے سخت خوف میں پڑ گیا اور اس کے دل کا آرام جاتا رہا۔ اکثر وہ روتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ آتھم صاحب موت سے پہلے ہی مرگئے اور ہماری سچائی کے پوشیدہ ہاتھ نے ایسا انہیں دبایا کہ گویا وہ زندہ ہی قبر میں داخل ہوگئے۔‘‘ (انجام آتھم ص۱۰،۱۱، خزائن ج۱۱ ص۱۰،۱۱)
سوم… ’’کہ خداتعالیٰ نے ایک نئے الہام کے رو سے آتھم کو مہلت دے دی تھی۔‘‘
(نور الاسلام ص۲، خزائن ج۹ ص۲) میں اس الہام ’’اطلع اﷲ علیٰ ہمہ وغمہ‘‘ کا ترجمہ یہ لکھا ہے کہ ’’خداتعالیٰ نے اس کے ہم وغم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۲)
لیکن ’’انوار الاسلام‘‘ ۲۷؍اکتوبر ۱۸۹۴ء کی تصنیف ہے اور پیش گوئی کی معیاد ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء تک تھی۔ ایک ماہ بائیس دن گذر جانے کے بعد مہلت دینے کا مطلب؟ مزہ تو تب تھا کہ میعاد سے پہلے الہام مہلت نازل ہوتا۔ تاکہ ۶؍ستمبر والے طوفان بدتمیزی سے تو نجات ملتی۔
چہارم… ’’سبب اس پیش گوئی کرنے کا یہی تھا کہ اس (آتھم) نے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں آنحضرت صلعم کا نام دجال رکھا تھا۔ سو اس کو پیش گوئی کرنے کے وقت قریبا ستر آدمیوں کے روبرو سنادیا گیا تھا کہ سبب اس پیش گوئی کا یہی ہے کہ تم نے ہمارے نبی کو دجال کہا تھا۔ سو تم اگر اس لفظ سے رجوع نہیں کروگے تو پندرہ ماہ میں ہلاک کئے جاؤ گے۔ سوآتھم نے اسی مجلس میں رجوع کیا اور کہا کہ معاذ اﷲ میں نے آنجناب کی شان میں ایسا لفظ کوئی نہیں کہا اور دونوں ہاتھ اٹھائے اور زبان منہ سے نکالی اور لرزتی ہوئی زبان سے انکار کیا۔ جس کے نہ صرف مسلمان گواہ بلکہ چالیس سے زیادہ عیسائی بھی گواہ ہوںگے۔ پس کیا یہ رجوع نہ تھا۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۲،۳، خزائن ج۱۹ ص۱۰۸،۱۰۹)
یہ جواب بوجوہ محل نظر ہے۔
اوّل… اگر آتھم نے واقعی اس جلسے ہی میں (جہاں پیش گوئی سنائی گئی تھی) رجوع کر لیا تھا تو پھر آپ پندرہ ماہ تک مضطرب کیوں رہے؟ منشی رستم علی کے خط میں اظہار پریشانی کیوں کیا؟ آخری دن وہ چنے قادیان کے اندھے کنوئیں میں کیوں پھینکے۔ آتھم کو دراصل مردہ