کیوں قرار دیا اور ۲۲؍ستمبر ۱۸۹۳ء کو یہ کیوں اعلان کیا۔ ’’ماسوا اس کے بعض اور عظیم الشان نشان اس عاجز کی طرف سے معرض امتحان میں ہیں۔ جیسا کہ منشی عبداﷲ آتھم امرتسری کی نسبت پیش گوئی جس کی میعاد ۵؍جون ۱۸۹۳ء سے پندرہ مہینہ تک ہے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۷۹، خزائن ج۶ ص۳۷۵)
جب رجوع ہوگیا تو پیش گوئی وہیں ختم ہوگئی۔
دوم… اگر رجوع سے مراد صرف لفظ دجال سے رجوع تھا تو پیش گوئی میں بھی اس کی وضاحت فرمائی ہوتی۔ ’’حق کا لفظ اس قدر وسیع ہے کہ کائنات کی کروڑوں سچائیاں اس کے دامن میں سمائی ہوئی ہیں۔ اتنے وسیع لفظ سے صرف ایک سچائی مراد لینا ایک ایسا تکلف ہے جس کا جواز ایک زبردست قرینہ کے بغیر نکل ہی نہیں سکتا۔ پیش گوئی میں جو فریق عمداً عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے ہاویہ میں گرایا جائے گا۔‘‘ (جنگ مقدس ص۲۱۰، خزائن ج۶ ص۲۹۲)
کے الفاظ صریحاً تثلیث وتوحید کا مفہوم دے رہے ہیں۔ دجال کا نہ تو یہاں ذکر ہے اور نہ کسی لفظ سے یہ اشارۃً بھی سمجھاجاتا ہے۔ پھر ہم اس تاویل کو کیسے قبول کریں۔
پنجم… کہ پیش گوئی میں پندرہ ماہ کی میعاد تھی ہی نہیں۔ ’’میں نے ڈپٹی آتھم کے مباحثہ میں قریباً ساٹھ آدمیوں کے روبرو یہ کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ سو آتھم بھی اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۱، خزائن ج۱۷ ص۴۷)
پیش گوئی میں پہلے اور پیچھے کا کوئی ذکر نہیں۔ وہاں تو صرف اتنا ہی ہے کہ جھوٹا (پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا)
ششم… کہ ہاویہ سے مراد موت نہیں بلکہ دماغی بے چینی تھی۔ جس میں آتھم پورے پندرہ ماہ گرفتار رہا اور اس طرح پیش گوئی پوری ہوگئی۔ ’’اور توجہ سے یاد رکھنا چاہئے کہ ہاویہ میں گرائے جانا جو اصل الفاظ الہام ہیں وہ عبداﷲ آتھم نے اپنے ہاتھ سے پورے کئے اور جن مصائب میں اس نے اپنے تئیں ڈال لیا اور جس طرز سے مسلسل گھبراہٹوں کا سلسلہ ان کے دامن گیر ہوگیا اور ہول اور خوف نے اس کے دل کو پکڑ لیا۔ یہی اصل ہاویہ تھا۔‘‘
(انوار الاسلام ص۵،۶، خزائن ج۹ ص۵،۶)
پیش گوئی کے الفاظ ذرا سامنے رکھئے۔ ’’ہاویہ میں گرایا جائے گا۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘ تو گویا آتھم اصل ہاویہ میں گرادیا گیا تھا۔ اس لئے کہ اس نے حق کی طرف