دوم…
پنجۂ آتھم سے مشکل ہے رہائی آپ کی
توڑ ہی ڈالیں گے وہ نازک کلائی آپ کی
جھوٹ ہیں باطل ہیں دعویٰ قادیانی کے سبھی
بات سچی ایک بھی ہم نے نہ پائی آپ کی
خوب ہے جبریل اور الہام والا وہ خدا
آبرو سب خاک میں کیسی ملائی آپ کی
سوم…
اب دام مکر اور کسی جا بچھائیے
بس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے
ہم نے ان اشتہارات میں سے نسبتاً مہذب اقوال انتخاب کئے ہیں اور نہ ان میں مغلظات کا وہ ہجوم ہے کہ نقل کرتے بھی حجاب آتا ہے۔ ان اشتہارات سے صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ آتھم اور اس کے فریق نے پیش گوئی کی شرط رجوع الیٰ الحق کو پورا نہیں کیا تھا۔ بلکہ وہ اپنے طغیان وتمر دپہ ڈٹے ہوئے تھے اور انہوں نے ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو مرزاقادیانی اور خدا وجبریل کی انتہائی توہین کی۔ نہ صرف ۶؍ستمبر کو بلکہ عبداﷲ آتھم اسلام اور مرزاقادیانی کے خلاف مسلسل لکھتا رہا۔ اس کی ایک نہایت زہریلی کتاب ’’خلاصہ مباحثہ‘‘ جس میں تثلیث پہ پر زور دلائل ہیں۔ توحید کامضحکہ اڑایا گیا ہے اور مرزاقادیانی پر بے پناہ پھبتیاں کسی گئی ہیں۔ اسی زمانے (پندرہ ماہ) کی تصنیف ہے۔ ان واقعات کی روشنی میںکون کہہ سکتا ہے کہ آتھم نے رجوع الیٰ الحق کر لیا تھا اور عاجز انسان کو خدا بنانے سے باز آگیا تھا؟ اگر نہیں کیا تھا اور یقینا نہیں کیا تھا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بسزائے موت ہاویہ میں کیوں نہیں گرا؟ آخر یہ پیش گوئی اﷲ کی طرف سے تھی یہ کسی انسان کا افتراء نہیں تھا اور مرزاقادیانی نے اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر فرمایا تھا۔ ’’وہ ضرور ایسا کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں۔ پر اس کی بات نہ ٹلے گی۔‘‘
مرزاقادیانی نے اس سوال کے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ہیں۔ مثلاً:
اوّل… ’’کہ خدا اپنے وعدے کو توڑ سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ چونکہ سزا دینا سزا کا وعدہ کرنا خدا تعالیٰ کی ان صفات میں داخل نہیں۔ جو ام الصفات ہیں۔ کیونکہ دراصل اس نے انسان کے لئے نیکی کا ارادہ کیا ہے۔ اس لئے خدا کا وعید بھی جب تک انسان زندہ ہے اور