کیا آخری فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ اس مہر سے مجسٹریٹ بنتے ہیں؟ کیا دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اس مہر سے عدالتیں تیار ہوتی ہیں۔ اگر یہ مفہوم صریحاً غلط ہے تو پھر خاتم الانبیائ، خاتم الانبیاء (نبیوں کی مہر) کی یہ تفسیر کیسے درست ہوسکتی ہے کہ ’’ایسی مہر جس سے نبی بنتے ہیں۔‘‘ نحو کے رو سے خاتم مضاف ہے اور الانبیاء مضاف الیہ ہے۔ دنیا کی کسی بھی زبان میں ایک بھی ایسا مضاف موجود نہیں جو مضاف الیہ کا خالق وموجد ہو۔ اس لئے خاتم الانبیاء سے ایسی مہر مراد لینا جو انبیاء تیار کرتی ہو نہ صرف عربی لغات کے رو سے غلط بلکہ ہر زبان کے قواعد کے خلاف ہے۔مضاف اور مضاف الیہ میں صرف نوقسم کے تعلقات ہوسکتے ہیں۔
اوّل…
مضاف مملوک ہو اور مضاف الیہ مالک۔ مثلاً کتاب زید۔
دوم…
مضاف عام ہو اور مضاف الیہ خاص۔ مثلاً گل انار۔
سوم…
مضاف الیہ مضاف کی توضیح کرے۔ مثلاً کتاب شاہنامہ۔
چہارم…
مضاف، مضاف الیہ سے بنا ہو۔ مثلاً خاتم زر۔
پنجم…
مضاف، مظروف اور مصاف الیہ ظرف ہو۔ مثلاً آب دریا۔
ششم…
مضاف بیٹا یا بیٹی ہو۔ مثلاً ابن مریم۔
ہفتم…
مضاف مشبہ بہ اور مضاف الیہ مشبہ ہو۔ مثلاً مارزلف۔
ہشتم…
مضاف مستعار اور مضاف الیہ مستعارلہ ہو۔ مثلاً پائے عقل۔
نہم…
مضاف کو مضاف الیہ سے کچھ تعلق ہو۔ مثلاً شہرما۔ مکتب ما۔ کوئے ما وغیرہ
لیکن خاتم الانبیاء کی احمدی تفسیر سے ایک ایسا مرکب اضافی وجود میں آجاتا ہے جس کی کوئی نظیر دنیا کی کسی زبان میں نہیں مل سکتی۔ علاوہ ازیں جب خاتم کا لفظ کسی جماعت یا کسی گروہ کی طرف مضاف ہو تو وہ لازماً ’’آخری‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً خاتم المہاجرین (آخری مہاجر) خاتم المنجمین (آخری منجم) خاتم الخلفاء (آخری خلیفہ) اور خاتم الانبیاء (آخری نبی) عربوں کے وسیع لٹریچر میں اس کی لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔ لیکن اس قاعدہ کے خلاف ایک بھی مثال موجود نہیں۔
بہرحال لغت، نحو اور کلام عرب کی روشنی میں خاتم الانبیاء کے معنی صرف آخری نبی ہوسکتے ہیں وبس۔ آئیے اب یہ دیکھیں کہ خود قرآن نے ’’خاتم‘‘ کی تفسیر کیا پیش کی ہے۔