پیش گوئی کو دوبارہ غور سے پڑھئے۔ یہ نئی شرط وہاں نہیں ملے گی۔ اچھا مان لیا کہ تھی اور ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تھا۔ نتیجتاً نکاح فسخ یا مؤخر ہوگیا تھا تو پھر ۱۸۹۱ء سے ۱۹۰۵ء تک پورے چودہ برس مسلسل یہ کیوں کہتے رہے کہ خدا پھر اس کو تیری طرف لائے گا؟ کیا فسخ نکاح کی اطلاع اﷲ نے آپ کو نہیں دی تھی؟ پھر یہ بات بھی میری ناقص سمجھ سے بالاتر ہے کہ عورت کے توبہ کرنے سے نکاح کا رشتہ کیسے ٹوٹ گیا۔ ’’اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۲، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰)
اگر کوئی بیوی کسی گناہ سے توبہ کرے تو کیا اس کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ نکاح پڑھا اﷲ نے، زبردستی کی اس کے اقرباء نے، کہ سلطان احمد کے حوالے کر دی۔ فضل احمد اور سلطان احمد کی والدہ کو طلاق دی مرزاقادیانی نے، اور توبہ کرے۔ محمدی بیگم؟ کس بات پر؟ مان لیا کہ محمدی بیگم نے قصور کیا اور اس نے توبہ کر لی تو پھر وہ اﷲ کا باندھا ہوا رشتہ نکاح کیسے ٹوٹ گیا؟ کھولئے فقہ کی کوئی کتاب اور پڑھئے باب النکاح کیا وہاں کوئی ایسی دفعہ موجود ہے کہ اگر بیوی گناہوں سے تائب ہو جائے تو وہ شوہر پہ حرام ہو جاتی ہے۔ اس تاویل میں ایک اور معمہ بھی حل طلب ہے۔ خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی کہ اے عورت توبہ کر۔ جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح یا فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔
شرط کا تعلق صرف عورت سے تھا۔ لیکن اسے پورا کیا۔ ان لوگوں نے، کن لوگوں نے؟ عورت کے اقرباء نے؟ کس طرح؟ کیا وہ تائب ہوکر معافی مانگنے آئے تھے؟ کیا انہوں نے سلطان احمد کو مجبور کیا تھا کہ وہ محمدی بیگم کو طلاق دے دے؟ کیا وہ حلقہ بیعت میں شامل ہوگئے تھے؟ اگر ان میں سے کوئی بات ہی واقع نہیں ہوئی تو پھر ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کیسے کیا؟
یہ جملہ بھی خوب ہے۔ ’’نکاح یا تو فسخ ہوگیا۔ یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘
آپ تسلیم فرماتے ہیں کہ نکاح آسمان پہ پڑھا جاچکا تھا۔ تو پھر تاخیر میں کیسے پڑ گیا اور اگر فسخ ہوگیاتھا تو اﷲ کا فرض تھا کہ اپنے رسول کو مطلع کرتا۔ پورے انیس برس تک آپ اس عورت کی واپسی کے منتظر رہے اور اﷲ نے ایک مرتبہ بھی یہ نہ فرمایا کہ انتظار نہ کیجئے۔ ہم نکاح فسخ کر چکے ہیں۔ یہ جملہ صاف بتاتا ہے کہ مرزاقادیانی کو اﷲ کی طرف سے قطعاً کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔ ورنہ وہ مترددانہ انداز میں یہ نہ کہتے۔ فسخ ہوگیا ہے یا تاخیر میں پڑ گیا ہے۔ نکاح فسخ ہوا تھا یا مؤخر؟ اﷲ کو تومعلوم تھا۔ اگر اﷲ اپنے رسول کو بھی حقیقت حال سے مطلع کر دیتا تو وہ فسخ یاتاخیر میں سے صرف ایک صورت کا ذکر کرتے۔ پھر پڑھئیے: