بتارہا ہے۔‘‘ یعنی جھوٹ سے مراد عاجز انسان کو خدا بنانا ہے اور سچ کیا ہے؟ ’’اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خد کو مانتا ہے۔‘‘
ایک خدا کو ماننا اس پیش گوئی کے رو سے رجوع الیٰ الحق کا مفہوم ایک ہی ہوسکتا ہے۔ یعنی تثلیث سے تائب ہوکر توحید قبول کرنا۔
اس پیش گوئی کے پورا ہونے پر آپ کو کتنا یقین تھا۔ الفاظ ذیل میں دیکھئے۔ ’’اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے، روسیاہ کیا جاوے۔ میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں پر اس کی بات نہ ٹلے گی۔‘‘ (مندرجہ جنگ مقدس ص۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۳)
دن گزرتے گئے اور احمدی حلقوں میں اضطراب بڑھتا گیا۔ خود مرزاقادیانی بے حد پریشان تھے کہ میعاد میں صرف چودہ دن رہ گئے ہیں اور آتھم ہر طرح بخیر وعافیت ہے۔ چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں۔ ’’مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اﷲ عنایت نامہ معہ کارڈ پہنچا۔ اب تو صرف چند روز (چودہ روز) پیش گوئی میں رہ گئے ہیں۔ دعاء کرتے رہیں کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو امتحان سے بچاوے۔ شخص معلوم (آتھم) فیروز پور میں ہے۔ تندرست وفربہ ہے۔ خداتعالیٰ اپنے ضعیف بندوں کو ابتلاء سے بچاوے۔ آمین ثم آمین! مولوی صاحب کو بھی لکھیں کہ اس دعاء میں شریک رہیں۔ والسلام! خاکسار: غلام احمد از قادیان! (۲۲؍اگست ۱۸۹۴ئ، مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۳ ص۱۲۸)
یہاں تک کہ آخری دن آگیا۔ ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے اور میاں حامد علی صاحب مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے (تعداد یاد نہیں رہی) لے لو اور ان پر فلاں سورت کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو۔ (وظیفے کی تعداد بھی یاد نہیں) میاں عبداﷲ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورت بھی یاد نہیں رہی۔ مگر اتنا یاد ہے کہ وہ چھوٹی سی صورت تھی۔ ہم نے یہ وظیفہ ساری رات صرف کر کے ختم کیا۔ وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب کے پاس لے گئے۔ اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا یہ دانے کسی غیر آباد کنوئیں میں ڈالے جائیںگے اور فرمایا کہ جب میں دانے کنوئیں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیر آباد کنوئیں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر