۱۹۰۱ء میں فرمایا۔ ’’اور ایک حصہ پیش گوئی کا یعنی احمد بیگ کا میعاد کے اندر فوت ہوجانا حسب منشائے پیش گوئی صفائی سے پورا ہوگیا اور دوسرے کی انتظار ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۶۸، خزائن ج۱۷ ص۱۵۴)
۱۹۰۲ء میں اعلان کیا۔ ’’یاد رکھو کہ اس (محمدی بیگم والی) کی دوسری جز پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروںگا۔ اے احمقو! یہ (پیش گوئی) انسان کا افتراء نہیں۔ یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸) اور ایک صفحہ پہلے اسی پیش گوئی کے متعلق لکھا۔ ’’جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیںگی۔ اس دن… نہایت صفائی سے (مخالفین کی) ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سورؤں کی طرح کر دیںگے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
مئی ۱۸۹۱ء میں نکاح ہوا۔ حسب پیش گوئی سلطان احمد (شوہر محمدی بیگم) کو دسمبر ۱۸۹۳ء سے پہلے فوت ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن وہ اس کے بعد بھی تقریباً چالیس برس تک زندہ رہا۔ اس کے متعلق ۱۹۰۲ء میں فرماتے ہیں۔ ’’شاتان تذبحان۔ دوبکریاں ذبح کی جائیںگی۔ پہلی بکری سے مراد احمد بیگ ہوشیار پوری ہے اور دوسری بکری سے مراد اس کا داماد… اور پھر (اﷲ نے) فرمایا کہ غم مت کر۔ کیونکہ ایسا ہی ظہور میں آئے گا۔ کیا دنیا میں کوئی اور شخص موجود ہے جس کی تحریروں میں یہ عظیم الشان سلسلہ پیش گوئی کا پایا جائے۔ یقینا کوئی سخت بے حیا ہوگا۔ جو اس فوت العادت سلسلے سے انکار کرے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۷، خزائن ج۱۱ ص۳۴۱)
یہ سلسلہ امید جاری رہا اور ۱۹۰۵ء میں ارشاد ہوا۔ ’’وحی الٰہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی۔ یہ تھا کہ ضرور ہے کہ اوّل دوسری جگہ بیاہی جائے… خدا پھر اس کو تیری طرف لائے گا۔‘‘ (الحکم مورخہ ۳۰؍جون ۱۹۰۵ء ص۲)
جب ۱۸۸۸ء کی پیش گوئی تقریباً بیس برس تک پوری نہ ہوئی اور مرزاقادیانی پوری طرح مایوس ہوگئے تو آپ نے ۱۹۰۷ء میں لکھا۔ ’’خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ کہ ’’ایتھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علیٰ عقبک‘‘ (اے عورت توبہ کر کہ مصائب تیرا پیچھا کر رہے ہیں) پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا یا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۲،۱۳۳، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰)