کتنے گھر برباد ہوئے۔
۱… فضل احمد کا گھر۔
۲… دونوں بھائی محروم الارث اور عاق۔
۳… دونوں کی والدہ کو طلاق۔
اصل پیش گوئی کی عبارت پھر پڑھئے۔ ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی پڑے گی اور دیکھئے کہ تفرقہ کی مصیبت کہاں جاٹوٹی۔
پھر کیا ہوا۔ یہی کہ عید کے معاً بعد (مئی ۱۸۹۱ئ) محمدی بیگم کا نکاح سلطان احمد سے ہوگیا۔ نکاح کے بعد بھی مرزاقادیانی کو اپنی وحی پہ ایمان کامل رہا۔
۱۸۹۳ء میں اس پیش گوئی کی عظمت پہ بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ پیش گوئی بہت ہی عظیم الشان ہے۔ کیونکہ اس کے اجزاء یہ ہیں۔
۱… مرزااحمد بیگ تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔
۲… داماد اس کا اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔
۳… احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو۔
۴… وہ دختر تانکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔
۵… یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔
۶… اس عاجز سے نکاح ہو جاوے۔ (شہادۃ القرآن ص۸۰، خزائن ج۶ ص۳۷۶)
۱۸۹۴ء میں ارشاد ہوا۔ ’’اے خدائے قادر وعلیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا۔ یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے نہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۸۹۴ئ، تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۸۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۵،۱۱۶)
۱۸۹۶ء میں کہا۔ ’’اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آجانا یہ تقدیر مبرم ہے۔ جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ کلمہ موجود ہے کہ ’’لا تبدیل لکلمات اﷲ‘‘ (اﷲ کی بات بدل نہیں سکتی) یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘
(اعلان ۶؍ستمبر ۱۸۹۶ئ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۳ص۱۱۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)