۲… دوبارہ لکھا۔ ’’ہزاروں پادری شرارت سے منتظر ہیں کہ یہ پیش گوئی جھوٹی نکلے تو ہمارا پلہ بھاری ہو۔ یہ عاجز آپ سے ملتمس ہے کہ آپ اپنے ہاتھ سے اس پیش گوئی کے پورا ہونے کے لئے معاون ہیں۔ تاکہ خداتعالیٰ کی برکتیں آپ پر نازل ہوں۔‘‘
(منقول از کلمۂ فضل رحمانی، مؤلفہ قاضی فضل احمد)
۳… پھر دھمکی دی۔ پہلی بیگم سے مرزاقادیانی کے دو بیٹے تھے۔ فضل احمد اور سلطان احمد۔ فضل احمد کی شادی مرزاعلی شیر بیگ کے ہاں ہوئی تھی۔ احمد بیگ مرزاعلی شیر کا سالا تھا۔ آپ نے ایک خط مرزاعلی شیر کی زوجہ کو اور دوسرا خود علی شیر کو لکھا۔ مضمون یہ تھا۔
مشفقی مرزا علی شیر بیگ صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ!
السلام علیکم!
میں نے سنا ہے کہ: ’’عید کی دوسری یا تیسری تاریخ کو اس لڑکی (محمدی بیگم) کا نکاح ہونے والا ہے اور آپ کے گھر کے لوگ (بیوی) اس مشورے میں ساتھ ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس نکاح کے شریک میرے سخت دشمن ہیں۔ عیسائیوں کو ہنسانا، ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں… ان لوگوں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس کو خوار وذلیل کیا جاوے اور روسیاہ کیا جاوے۔ میں نے آپ کی خدمت میں لکھ دیا ہے کہ اگر آپ اپنے ارادے سے باز نہ آئیں اور اپنے بھائی (احمد بیگ) کو اس نکاح سے روک نہ دیں تو پھر ایک طرف جب محمدی کا کسی شخص سے نکاح ہوگا تو دوسری طرف سے فضل احمد آپ کی لڑکی کو طلاق دے گا۔ اگر نہیں دے گا تو میں اس کو عاق اور لاوارث کردوںگا۔‘‘ (مکتوب مرزاقادیانی محررہ ۲۵؍مئی ۱۸۹۱ئ، نوشتہ غیب ۱۲۴،۱۲۵)
سوچنے کا مقام ہے کہ نکاح کی بشارت اﷲ نے دی۔ تشہیر مسیح موعود نے کی۔ اڑ بیٹھے لڑکی کے والدین اور پٹ گیا غریب فضل احمد۔ جسے بیوی کو چھوڑنے اور محروم الارث ہونے کا نوٹس مل گیا۔ کوئی پوچھے کہ اس کا کیا قصور؟ اگر قصور تھا تو صرف خداتعالیٰ کا۔ جس نے اپنی بجلیوں، وباؤں اور تازیانوں سے کام نہ لیا۔ بات کہہ ڈالی اور اسے منوانے کا کوئی انتظام نہ کیا۔ دوسرے بیٹے سلطان احمد (نائب تحصیلدار لاہور) کے متعلق ایک اشتہار نکالا جس میں درج تھا۔ ’’میرا بیٹا سلطان احمد اور اس کی تائی اس تجویز میں ہیں کہ عید کے دن یا اس کے بعد اس لڑکی کا کسی سے نکاح کیا جائے۔ لہٰذا میں آج کی تاریخ سے کہ ۲؍مئی ۱۸۹۱ء ہے۔ عوام اور خواص پر بذریعہ اشتہار ہذا ظاہر کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اس ارادہ سے باز نہ آئے تو اسی نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوگا اور اسی روز سے اس کی والدہ پر میری طرف سے طلاق ہے۔‘‘ (اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت ج۲ ص۹، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۹،۲۲۱)