سال میں دس ہزار مہینے میں آٹھ سو تینتیس، ہفتے میں دوسو اسی اور ایک دن میں چالیس معجزات سرزد ہوئے۔
۷… ۱۹۰۵ء میں بھی تعداد ہزار ہاتھی۔ ’’اب تک میرے ہاتھ پر ہزارہا نشان تصدیق رسول اﷲ اور کتاب اﷲ کے بارہ میں ظاہر ہوچکے ہیں۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۱۸، خزائن ج۲۰ ص۳۵۱)
۸… صرف ایک سال بعد۔ ’’اگر خداتعالیٰ کے نشانوں کو جو میری تائید میں ظہور میں آچکے ہیں۔ آج کے دن تک شمار کیا جائے تو وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوںگے۔‘‘
(حقیقت الوحی۱؎ ص۴۶، خزائن ج۳۳ ص۴۸)
حساب یوں ہوا۔ سال میں تین لاکھ، مہینے میں پچیس ہزار اور دن میں آٹھ سو تینتیس۔ اگر خواب کے لئے آٹھ گھنٹے، عبادت کے لئے چار گھنٹے۔ خوردونوش کے لئے تین گھنٹے، ملاقاتیوں کے لئے دو گھنٹے۔ تصنیف وتالیف وعظ وپند اور دیگر حوائج ضروریہ کے لئے چار گھنٹے نکال لئے جائیں تو باقی ہر روز صرف تین گھنٹے (شب وروز میں سے) بچتے ہیں۔ چلو چھ سہی۔ اگر آٹھ سو تینتیس نشانات کو چھ گھنٹوں میں پھیلایا جائے تو ایک گھنٹے میں ان کی تعداد ایک سو انتالیس اور ایک منٹ میں اندازاً اڑھائی بنتی ہے۔ ایک منٹ میں اڑھائی معجزے۔ کیا یہ نشانات اسی رفتار سے سرزد ہوتے تھے؟ خود فرماتے ہیں۔ ’’اور کوئی مہینہ شاذونادر ایسا گزرتا ہوگا جس میں کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۹۱، خزائن ج۲۲ ص۱۹۹)
۹… صرف چند روز بعد یہی تعداد گھٹ کر سینکڑوں تک رہ جاتی ہے۔ ’’جو شخص… مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے وہ مؤمن کیونکر ہوسکتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۴، خزائن ج۲۲ ص۱۶۸)
۱۰… اور دسمبر ۱۹۰۷ء میں پھر ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ ’’خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور ایک لاکھ سے بھی زیادہ اس نے میرے ہاتھ پر نشان دکھلائے ہیں۔‘‘
(مضمون محررہ ۲؍دسمبر ۱۹۰۷ئ، مندرجہ چشمۂ معرفت ص۶۰، خزائن ج۲۳ ص۴۲۸)
۱؎ حقیقت الوحی کافی ضخیم کتاب ہے۔ جسے مرزاقادیانی نے مارچ ۱۹۰۶ء میں لکھنا شروع کیا تھا اور ۱۵؍مئی ۱۹۰۷ء کو ختم فرمایا۔ یہ اقتباس آغاز کتاب کا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۰۶ء کے مارچ تک آپ سے تین لاکھ سے زیادہ نشانات ظاہر ہوچکے تھے۔