اس آیت کا صرف ایک لفظ خاتم وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ احمدی بھائی اس کا ترجمہ مہر کرتے ہیں۔ ’’محمد علیہ السلام انبیاء کی مہر ہیں‘‘ یعنی امت محمدیہ کے انبیاء حضور علیہ السلام کے مہر شدہ فرمان سے آئیںگے اور حضور کی تصدیق کے بغیر آئندہ کوئی نبی نہیں آسکے گا۔ باقی مسلمان خاتم کے معنی آخری کرتے ہیں۔ دونوں تفسیروں میں انتہائی تضاد ہے۔ ایک تفسیر سے سلسلہ انبیاء جاری رہتا ہے اور دوسرے سے بند ہو جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جھگڑا فیصلے کے لئے کہاں لے جائیں۔ مجھے صرف تین ایسی عدالتیں نظر آتی ہیں جو اس نزاع پر فیصلہ دینے کی مجاز ہیں۔ اوّل علمائے لغت یعنی عربی زبان کے ماہرین، دوم قرآن اور سوم حدیث۔
لغت کی روشنی میں
’’المنجد: الخاتم والخاتم عاقبۃ کل شیٔ‘‘ {ہر چیز کے آخر کو خاتم وخاتم کہتے ہیں۔}
منتہی الارب: خاتم= مہر، انگوٹھی، پایان کار۔
خاتم= آخر ہر چیز۔ پایان آں وآخر قوم۔
مفردات القرآن۔ صراح۔ قاموس۔ تہذیب (ازہری) لسان العرب۔
تاج العروس۔ مجمع البحار۔ صحاح العربیہ اور کلیات ابی البقاء میں خاتم وخاتم کے معانی تقریباً ایک جیسے دیئے ہوئے ہیں۔ یعنی:
۱…
وہ نگینہ جس پر نام کندہ ہو۔
۲…
انگوٹھی۔
۳…
آخر۔ انجام۔
۴…
کسی چیز کو ختم کرنے والا۔
۵…
کاغذ پر مہر کا نقش۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیۂ زیر بحث میں کون سے معنی چسپاں ہوتے ہیں۔ ’’آخری نبی‘‘ کا مفہوم تو بالکل صاف ہے۔ لیکن ’’نبیوں کی مہر یا انگوٹھی‘‘ کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ پہلے ان فقروں کو پڑھئے۔
۱…
یہ مہر زید کی ہے۔
۲…
یہ مہر عدالت کی ہے۔
۳…
یہ مہر مجسٹریٹوں کی ہے۔