ملاحظہ فرمالیا آپ نے مرزاقادیانی کا انداز تفسیر؟
چہارم… (ازالہ اوہام جلد اوّل ص۲۹ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۱۷) پر قرآن کی آیۂ ذیل نقل کرنے کے بعد ایک عجیب ترجمہ کرتے ہیں۔ ’’مناع للخیر معتدٍ اثیم۰ عتل بعد ذلک زنیم (القلم:۱۲،۱۳)‘‘ {نیکی کی راہوں سے روکنے والا زناکار اور بایں ہمہ نہایت درجہ کا بدخلق اور ان سب عیبوں کے بعد ولد الزنا بھی ہے۔}
آپ نے اثیم کے معنی زناکار اور زنیم کے معنی ولد الزنا کئے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن کا مصنف یعنی اﷲ اس طرح کی شستہ زبان استعمال کیا کرتا تھا اور کیا کوئی مہذب انسان اس انداز گفتگو کی برداشت کرسکتا ہے؟ آئیے دیکھیں کہ اہل زبان نے ان الفاظ کے کیا معنی بتائے ہیں۔ اثیم کاماخذ ہے۔ اثم بمعنی گنہگار۔ (قاموس ومنجد)
قرآن میں اثیم کا لفظ بیسیوں جگہ استعمال ہوا ہے۔ کہیں بھی زنا کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ مثلاً ’’ان بعض الظن اثم‘‘ یہ قرآن کی آیت ہے کیا آپ اس کی تفسیر یہ کریںگے کہ بعض ظن زنا ہیں؟ حضورﷺ کا خط شاہ ایران کے نام پڑھئے۔ اس کا آخری حصہ یہ ہے۔ (اگر تم اسلام نہ لائے تو مجوس کا گناہ تیری گردن پر رہے گا)
کیا یہاں بھی گناہ سے مراد زنا ہے؟ اثیم کے معنی ہیں گنہگار وبس گناہ سینکڑوں ہوسکتے ہیں۔ ان تمام کو چھوڑ کر زنا مراد لینا کسی طرح بھی روا نہیں۔ اسی طرح زنیم کا ترجمہ ولد الزنا بھی درست نہیں۔ المنجد میں درج ہے۔ ’’الزنیم۰ اللئیم‘‘ بخیل، بدبخت۔ ’’الداعی‘‘ متبنّٰی۔ ’’اللاحق بقوم لیس منہم ولاہم یحتاجون الیہ‘‘ قوم میں کسی ایسے آدمی کی شمولیت جو اس قوم میں سے نہ ہو اور نہ قوم کو اس کی ضرورت ہو۔ منتہی الارب میں مذکور ہے۔ زنیم۔ کامیر۔ مردے از قومے چسپیدہ کہ نہ از۔
ایشاں بودوپسر خواندہ (متبنّٰی) وناکس۔
وسخت فرومایہ وبد خو کہ درناکسی معروف باشد۔
پس یہ ہیں زنیم واثیم کے معانی لغات عرب میں۔ نہ جانے یہ زناکار وولد الزنا کے مفاہیم آپ نے کہاں سے لئے۔
پنجم… قرآن حکیم میں ایک مقام پر پیروان رسول کو خیرالامم کہاگیا ہے۔ ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس (آل عمران:۱۱۰)‘‘ {تم ایک بہترین قوم ہو۔ جو دنیا کی اصلاح کے لئے اٹھی۔}