اخرجت: نکالی گئی۔پیدا کی گئی۔
للناس: ل: لئے۔ ناس: انسانوں، یعنی انسانوں کے لئے۔
مطلب یہ کہ تمہارا مقصد نوع انسانی کی اصلاح وفلاح ہے۔ بات سیدھی سی تھی۔ لیکن مرزاقادیانی نے اس کی وہ تفسیر پیش کی کہ یہ آیہ معما بن کر رہ گئی۔ فرماتے ہیں: ’’الناس کے لفظ سے دجال ہی مراد ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۲۱، خزائن ج۱۷ ص۱۲۱)
یعنی اے مسلمانو! تم دجال کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ کیا مطلب؟ کیا مسلمانوں نے صرف دجال کی اصلاح کرنا ہے؟ یا یہ مطلب ہے کہ ہم سب دجال کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ جس طرح چاہے ہمیں استعمال کرے؟ آخر للناس کا لام برائے انتفاع ہے۔ پھر الناس جمع ہے اور دجال مفرد۔ جمع سے مفرد کیسے مراد ہوا؟
ششم… ’’خطبہ الہامیہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’صراط الذین انعمت علیہم‘‘ سے مراد وہ ابدال واولیاء ہیں جومسیح موعود پر ایمان لائے۔‘‘ اور مغضوب وضالین سے مراد میرے منکر ہیں۔ تعجب ہے کہ آپ لوگ نماز پڑھنے کے باوجود مجھ پر ایمان نہیںلاتے اور مجھ سے بیعت نہیں کرتے۔ (ملخص خطبۂ الہامیہ ص۱۲۴،۱۲۷، خزائن ج۱۶ ص۱۹۵)
یہ تفسیر محتاج تبصرہ نہیں۔
ہفتم… قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہاگیا۔ ’’یا آدم اسکن انت وزوجک الجنۃ (البقرہ:۳۵)‘‘ {اے آدم تو اپنی بیوی کے ساتھ جنت میں مقیم ہوجا۔}
مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ یہی آیت دوپیرایوں میں مجھ پر دوبارہ نازل ہوئی۔ ایک الفاظ یہی تھے اور دوسرے میں آدم کی جگہ لفظ مریم تھا۔ بہرحال مخاطب آدم ہو یا مریم۔ معنوں کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مرزاقادیانی اس کی تفسیر یوں فرماتے ہیں۔
اوّل… ’’اے آدم تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے۔ جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہو جاؤ۔‘‘ (براہین حاشیہ در حاشیہ ج۳ ص۴۹۶، خزائن ج۱ ص۵۹۱)
دوم… ’’اے آدم تو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو۔‘‘
(اربعین نمبر ۳ ص۲۵، خزائن ج۱۷ ص۴۱۲،۴۱۳)
پہلی تفسیر میں صرف دوست جنت میں گیا تھا۔ اس میں بیوی بھی شامل ہوگئی ہے اور آیت وہی ہے۔