ستارے بے نور ہو جائیںگے۔ آسمان پھٹ جائے گا۔ پہاڑ اڑ جائیںگے اور رسول وقت معین پہ جمع کئے جائیںگے۔ انبیاء کا معاملہ کس روز کے لئے ملتوی ہوتا رہا۔ اسی روز کے لئے جو یوم الفصل یعنی فیصلے کا دن ہے۔}
یہ آیات قیامت کے ذکر سے شروع ہوکر قیامت ہی پہ ختم ہوتی ہیں۔ درمیان میں علامات قیامت کا ذکر ہے۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس روز انبیاء ایک خاص وقت پہ میدان محشر میں حاضر ہوںگے اور ان کے مقدمات پر غور ہوگا۔
لیکن مرزاقادیانی ’’واذ الرسل اقتت‘‘ کا ترجمہ یہ فرماتے ہیں۔ ’’اور جب رسول وقت مقرر پہ لائے جائیںگے اور یہ اشارہ درحقیقت مسیح موعود کے آنے کی طرف ہے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۲۳، خزائن ج۶ ص۳۱۹)
مسیح موعود کی طرف اشارہ کیسے ہوسکتا ہے۔ جب کہ الرسل جمع ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ یہ ہے کہ امت محمدیہ میں صرف ایک رسول پیدا ہوا یعنی مسیح موعود اور وہ خاتم الخلفاء بھی ہے۔ جب اس امت میں کسی اور رسول کی بعثت مقدر ہی نہیں تو پھر الرسل (بہت سے انبیائ) سے ایک مسیح موعود کیسے مراد لیا جاسکتا ہے۔ قواعد زبان اس تفسیر کی اجازت نہیں دیتے۔
سوم… علامات قیامت میں سے ایک علامت نفخ فی الصور ہے۔ ’’ونفخ فی الصور فصعق من فی السمٰوٰت ومن فی الارض الا ماشاء اﷲ ثم نفخ فیہ اخریٰ فاذا ہم قیام ینظرون (الزمر:۶۸)‘‘ {جب وہ کرنا پھونکی جائے گی تو ساکنان ارض وسما کی چیخیں نکل جائیںگی اور جب دوسرے مرتبہ پھونکی جائے گی تو لوگ قبروں سے نکل کر ادھر ادھر دیکھنے لگیںگے۔} اس آیت کے متعلق مرزاقادیانی کا ارشاد یہ ہے کہ: ’’کرنا سے مراد مسیح موعود کا پیدا ہونا ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۲۵، خزائن ج۶ ص۳۲۱)
بہت اچھا مسیح موعود سہی۔ لیکن پہلی پھونک پر اہل زمین وآسمان کے چیخ اٹھنے اور دوسرے پر مردوں کے جی اٹھنے سے کیا مراد ہے؟ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’آخری دنوں میں دوزمانے آئیںگے۔ ایک ضلالت کا زمانہ اور اس زمانہ میں ہر ایک زمینی اور آسمانی یعنی شقی اور سعید پر غفلت سی طاری ہو جائے گی… (لیکن قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ پہلی پھونک پر اہل زمین وآسمان کی فریادیں نکل جائیںگی اور آپ فرماتے ہیں کہ غفلت سی طاری ہوگی۔ یہ غفلت اور چیخ کا آپس میں کیا تعلق؟ غفلت میں تو نیند آتی ہے نہ کہ چیخیں نکلتی ہیں۔ برق) اور پھر دوسرا زمانہ ہدایت کا آئے گا۔ پس ناگاہ لوگ کھڑے ہو جائیںگے۔‘‘ (شہادت القرآن ص۲۵، خزائن ج۶ ص۳۲۱)