لیکن مرزاقادیانی اس آیت کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں۔ ’’جدھر تیرا منہ خدا کا اسی طرف منہ ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ششم ص۶۹، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰) دونوں ترجموں میں بڑا فرق ہے۔ پہلے کا مفہوم یہ کہ اﷲ ہر طرف موجود ہے اور دوسرے کا یہ کہ خدا تیرے منہ کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ تو جدھر منہ پھیرے خدا بھی اسی طرف پھیر لیتا ہے۔ اس ترجمہ سے خدائی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ نیز آیت کے الفاظ بھی اس تفسیر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ (تولو) صیغہ جمع ہے۔ معنی جدھر تم سب منہ پھیرو۔ اور مرزاقادیانی اسے واحد بناکر معنی کرتے ہیں۔ ’’جدھر تیرا منہ‘‘ یہ ’’تیرا‘‘ کہاں سے آگیا۔
دوم… قرآن حکم میں حضورﷺ کے کئی غزوات کا ذکر موجود ہے۔ ’’ولقد نصرکم اﷲ ببدر وانتم اذلۃ (آل عمران:۱۲۳)‘‘ {اﷲ نے تمہیں بدر میں فتح دی۔ حالانکہ تم کمزور تھے۔}
’’لقد نصرکم اﷲ فی مواطن کثیرۃ ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئًا (التوبہ:۲۵)‘‘ {اﷲنے کئی میدانوں میں تمہاری مدد کی۔ خصوصاً جنگ حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پہ مغرور ہوگئے تھے۔ وہاں دنیا کی کوئی طاقت تمہیں شکست سے نہ بچا سکی۔}
جنگ احزاب کاذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’اذجاؤکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذراغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر (الاحزاب:۱۰)‘‘ {یاد کرو وہ دن جب کفار ہر بلندی وپستی سے تم پر ٹوٹ پڑے تھے۔ جب تمہاری آنکھیں فرط خون سے پتھرا گئیں تھیں اور کلیجے منہ کو آگئے تھے۔}
اسی طرح باقی جنگوں کی تفصیل بھی قرآن میں درج ہے۔ لیکن ہماری حیرت کی انتہاء نہیں رہتی۔ جب مرزاقادیانی کا یہ قول پڑھتے ہیں۔ ’’آنحضرتﷺ کا بعد بعثت دس سال تک مکہ میں رہنا اور پھر وہ تمام لڑائیاں ہونا جن کا قرآن کریم میں نام ونشان نہیں۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۳،۴، خزائن ج۶ ص۲۹۹،۳۰۰)
قرآن حکیم میں زلزلۂ آخرت کا منظر کئی مقامات پہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک مقام یہ ہے۔ ’’انما توعدون لواقع۰ فاذا النجوم طمست۰ واذا السماء فرجت۰ واذالجبال نسفت۰ واذالرسل اقتت۰ لایّ یوم اجلت۰ لیوم الفصل (المرسلات:۷تا۱۳)‘‘ {جس قیامت کا تم سے وعدہ کیاگیا ہے وہ آکر رہے گی۔ اس روز