کا اپنی ذات اور صفات اور افعال میں واحد لاشریک ہونا ضروری ہے اور اس کی کسی صنعت یا قول یا فعل میں شراکت مخلوق کی جائز نہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۴۶، خزائن ج۱ ص۱۴۹،۱۵۰)
’’اور ذات اس کی ان تمام نالائق امور سے متنزہ ہے۔ جو شریک الباری پیدا ہونے کی طرف منجر ہوں۔ دوسرے ثبوت اس دعویٰ کا استقرأ تام سے ہوتا ہے۔ ان سب چیزوں پر جو صادر من اﷲ میں نظر تدبر کر کے بہ پایۂ ثبوت پہنچ گیا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۱۴۹،۱۵۰، خزائن ج۱ ص۱۵۳،۱۵۴)
’’عیسائیوں کا قول کہ صرف مسیح کو خدا ماننے سے انسان کی فطرت منقلب ہوجاتی ہے اور گو کیسا ہی کوئی من حیث الخلقت قویٰ سبعیہ یا قوائے شہویہ کا مغلوب ہویا قوت عقلیہ میں ضعیف ہو وہ فقط حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ کا اکلوتا بیٹا کہنے سے اپنی جبلی حالت چھوڑ جاتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۱۷۱ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۱۸۳)
اسی کتاب میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر بھی درج ہے۔ جس پر متصوفانہ رنگ چڑھا ہوا ہے اور تصوف کے متعلق میں اپنی رائے پیش کر چکا ہوں۔ ہر فرد کا زاویۂ نگاہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہوںگے۔ جنہیں یہ تفسیر پسند آئی ہوگی۔ لیکن میرے لئے یہ جاذب توجہ نہ بن سکی۔ اس لئے کہ میں اسلام کو حرکت وعمل، قوت وہیبت، جمال وجلال، تسخیر کائنات وآقائی ارض وافلاک کا مترادف سمجھتا ہوں اور جس تفسیر کے آئینہ میں مجھے اسلام کا یہ چہرۂ نظر نہ آئے وہ میرے لئے کوئی دلکشی نہیں رکھتی۔ بہرحال یہ میرا ذاتی نظریہ ہے اور اس سے سے اختلاف کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ اگر حقیقتاً مرزاقادیانی کی تفسیر میں کچھ رموز ومعارف موجود ہیں تو احمدی اہل قلم کا فرض ہے کہ وہ ان معارف کو سلیس وبرجستہ زبان میں پیش کریں۔ تاکہ مجھ جیسے کم علم بھی فائدہ اٹھاسکیں۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ مرزاقادیانی نے چند اور آیات کی تفسیر بھی فرمائی ہے۔ جن میں سے آیۂ ’’خاتم النبیین‘‘ آیۂ ’’کما ارسلنا الیٰ فرعون رسولا۰ ولو تقول‘‘ پہ بحث ہوچکی ہے اور باقی ماندہ میں سے چند یہ ہیں۔
اوّل… قرآن میں باربار ارشاد ہوا ہے کہ اﷲ کسی ایک جہت میں مقید نہیں بلکہ ’’فاینما تولوا فثم وجہ اﷲ (البقرہ:۱۱۵)‘‘ {تم جدھر بھی منہ پھیرو گے اﷲ کو سامنے پاؤ گے۔}