آئے دن کی لڑائیوں سے اکتائے ہوئے مغربی فلسفیوں نے جمعیت الاقوام کا نظریہ پیش کیا اور مولانا ابوالکلام آزاد نے سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں جمعیت آدم کا پورا نظام سامنے رکھ دیا۔ جب دور حاضر میں سرمایہ واشتراکیت کے پہاڑ آپس میں متصادم ہونے لگے تو قرآن حکیم نے آواز دی۔ لڑو مت آؤ میں تم کو راہ مصالحت بتاؤں۔ شخصی ملکیت جائز۔لیکن جمع مال ناجائز۔ حصول دولت جائز۔ لیکن ضروریات سے وافر ’’قل العفو‘‘ پاس رکھنا ناجائز۔
جب عہد حاضر کاانسان مطالعہ کائنات کی طرف متوجہ ہوا تو قرآن نے اسے تھپکی دی اور کہا۔ اس راہ پر بڑھے چل کہ قوۃ وہیبت کے خزائن اور علم وعرفان کے دفائن یہیں ملیںگے۔
ماحصل یہ کہ اسلام میں ہمیشہ ایسے مفسر پیدا ہوتے رہے جن کی تفسیری جدتوں نے کاروان حیات کو سست خرام نہ ہونے دیا اور ایسے مفکر تاقیامت آتے رہیںگے۔ جو ہر نئی تصویر میں قرآن کا رنگ بھرتے رہیںگے۔ ان پیہم تجارب کے بعد نسل انسانی قیادت الہام کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائے گی اور یہ زمانہ بہت دور نہیں۔ آج تک حقیقت کی جس قدر تفاسیر پیش ہوئیں ان میں سب سے زیادہ خواب آور، جمود انگیز اور حیات کش وہ ہے جس کا نام دوسرا نام تصوف یا رہبانیت ہے۔ قرآن زندگی کی تلخیوں سے الجھنے کی تعلیم دیتا ہے اور تصوف گریز کی۔ قرآن اپنے پیروں کو عقاب وضیغم بنانا چاہتا ہے اور تصوف حمام وگوسفند۔ قرآن تسخیر کائنات وآفاتی افلاک کا درس دیتا ہے اور تصوف تسلیم وانقیاد کا۔ اسلام سراپا عمل ہے اور تصوف سراپا جمود۔ وہ رفتار ہے اور یہ گفتار۔ یہ ثابت ہے اور وہ سیار۔ وہ شمشیر حیدر ہے اور یہ گلیم بوذر۔ وہ برق جہاں تاب ہے اور یہ آتش تہ آب۔ اسلام حرکت وعمل کا دوسرا نام ہے۔ اس نے رہبانیت کی طرف دست مصالحت آج تک نہیں بڑھایا اور حامل قرآن ہمیشہ اپنے خالد وطارق اور حیدر وفاروق پہ نازاں رہا۔ یہ صاحبان شمشیر ایک لحاظ سے فقیر بھی تھے کہ شان سکندری وسطوت قیصری کی پرواہ تک نہیں کرتے تھے۔ وہ اﷲ کے سپاہی تھے۔ اﷲ کے بغیر ہر چیز سے بے نیاز تھے اور صرف اﷲ کی مشیت کو سطح ارضی پہ نافذ دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے فقر میں تجلیات طور کے ساتھ ساتھ جلال کلیمی بھی تھا۔ وہ جمال جو جلال سے خالی ہو بیکار محض ہے اور اسی کا نام میرے ہاں تصوف ہے۔ (یہ مصنف کا اپنا وضع کردہ منفی نظریہ ہے۔ مرتب)
مجھے مرزاقادیانی کی چالیس پچاس تصانیف پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ چالیس حرفاً حرفاً اور آٹھ دس جزواً جزواً۔ ان تمام کا موضوع تقریباً ایک ہی تھا۔ یعنی:
۱… اثبات نبوت پہ دلائل۔