وہ ماڈرن ہو یا الٹرا ماڈرن۔ اپنے ماحول کا عکس اس میں دیکھ سکے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے تصورات پر یونانی فلسفہ چھا گیا تھا۔ اس فلسفہ نے خدا کو عضو معطل بناکر عرش پہ بٹھا دیا تھا۔ امام غزالی اور آپ کے ہمنوا علماء نے قرآن سے وہ دلائل استنباط کیں کہ افلاطونی فلسفہ کی ظلمتیں جلوۂ الہام کی تاب نہ لاسکیں۔ اسی طرح ابن العربی کے نظریۂ وحدت الوجود اور دیگر بیسیوں فرقوں کے عجمی افکار کی شکست وریخت کے لئے مفسرین میدان میں اترتے رہے اور غیر اسلامی تصورات کے استیصال میں کامیاب ہوتے رہے۔ قرآن نے ہر ملک اور ہر قوم کے سامنے ایک ایسا نظام زیست پیش کیا جو ان کے فرسودہ وبوسیدہ نظاموں سے پابند وتابندہ تر تھا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی پہنچے۔ ان کے جدید وغریب افکار براہ راست دل ودماغ پر حملہ آور ہوگئے اور ان مضبوط قلعوں کو انہوں نے فوراً فتح کرلیا۔
کائنات میں حقائق ازل سے موجود ہیں۔ جب یہ حقائق اوہام واباطیل کے حجابات میں مستور ہو جاتی ہیں تو کوئی دست غیب ان پردوں کو ہٹا کر حقیقت کو پھر بے نقاب کر دیتا ہے اور اسی کا نام تجدید ہے۔ حقیقت نہیں بدلتی۔ دو اور دو ہر زمانے میں چار رہے ہیں۔ پانی ہمیشہ ڈھلان کی طرف بہتا رہا اور نور ہمیشہ بلندیوں کی طرف مائل پرواز رہا۔ البتہ حقائق کی تفسیر سدا بدلتی رہی۔ ایک ہی بات کو پیش کرنے کے مختلف اسالیب ہوسکتے ہیں۔ کوئی ہمت شکن اور کوئی ہمت افزاء مثلاً شاعر نے کہا۔ ’’افسوس کہ پھول کے پہلو میں کانٹے ہیں۔‘‘
کس قدر ہمت شکن پیغام ہے۔ فلسفی نے اسی حقیقت کو یوں پیش کیا۔ ’’خوش ہو جا کہ کانٹوں کے پہلو میں پھول ہیں۔‘‘
اور فضائے یاس میں امیدوں کے بیسیوں دیپ جل اٹھے۔ مولانا حالی نے قوم کی حالت کا یوں نقشہ کھینچا تھا ؎
فلاکت پس وپیش منڈلا رہی ہے
نحوست سماں اپنا دکھلا رہی ہے
لیکن رجائی اقبالؒ نے حالی کا ساتھ نہ دیا اور رنگ بدل بدل کر فرمایا۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ بعض مفکرین عالم نے اعلان کیا کہ نسل انسانی مائل بہ زوال وروبہ فنا ہے۔ حکیم مشرقؒ نے فرمایا۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارامہ کامل نہ بن جائے