تو اسے لازماً ہرزمانے میں ایک ہونا چاہئے۔ ایک خدا کا پیغام ایک نسل انسانی کی طرف اس کی ایک فطرت کی اصلاح کے لئے ایک ہی ہوسکتا تھا۔ دس یا بیس نہیں ہوسکتے تھے۔ اسی لئے اﷲتعالیٰ نے باربار قرآن میں فرمایا: ’’ان ہذا لفی الصحف الاولیٰ (الاعلیٰ:۱۸)‘‘ {یہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی موجود ہے۔}
’’مایقال لک الا ماقد قیل للرسل من قبلک (حم السجدہ:۴۳)‘‘ {ہم تمہیں وہی پیغام دے رہے ہیں جو تم سے پہلے تمام انبیاء کو دیا گیا تھا۔}
’’للرسل‘‘ کا الف لام استغراقی ہے۔ یعنی تمام انبیاء کو یہی پیغام دیاگیا تھا۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ ہر نبی کوئی نہ کوئی پیغام لے کر آیا تھا۔ اسی پیغام کا نام شریعت تھا۔ یہ فرض کرلینا کہ بعض انبیاء شریعت کے بغیر آئے تھے۔ ایک مضحکہ خیز تصور ہے۔ اگر ان انبیاء کے پاس کوئی پیغام یا شریعت یا ضابطۂ اخلاق موجود نہیں تھا تو ان کی تشریف آوری کا مقصد کیا تھا؟ کیا وہ بھیڑیں چرانے آئے تھے۔ یا ایران وعرب میں تجارتی تعلقات قائم کرنے آئے تھے؟ جب وہ نبی تھے تو اﷲتعالیٰ نے لازماً وحی سے ان کی مدد کی ہوگی۔ خیر وشرکے تمام ضوابط سمجھائے ہوںگے اور ان انبیاء نے نسل انسانی سے کہا ہوگا کہ چوری وزنا، جھوٹ، بددیانتی وغیرہ سے بچو اور سچائی کو اختیار کرو۔ نیز ان کے معاشرتی روابط میں اعتدال پیدا کرنے کے لئے نکاح، وراثت وغیرہ پر مفصل ہدایات دی ہوںگی۔ کیا شریعت ان اخلاقی ومعاشرتی ضوابط سے الگ کوئی چیز ہے؟ پس ہم کسی نبی کو غیر شرعی فرض ہی نہیں کر سکتے۔ ہر نبی کے ساتھ وحی تھی۔ وہ نبی وحی سے درس خیر وشر لے کر امت تک پہنچاتا تھا۔ اسی وحی کا نام خواہ وہ دس صفحات میں پھیلی ہوئی تھی یا ہزار میں، شریعت ہے۔ جو زمانے میں ایک تھی۔ ’’شرع لکم من الدین ماوصیٰ بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ (الشوریٰ:۱۳)‘‘ {اے محمدؐ ہم تمہیں وہی دین اور وہی شریعت دے رہے ہیں۔ جو نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دی گئی تھی۔}
ان تمہیدی گذارشات کے بعد آئیے اس آیت پر بحث کریں جس کی مختلف تفسیروں نے ہمارے کئی ہزار بھائیوں کو ہم سے الگ کردیا ہے۔ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (الاحزاب:۴۰)‘‘ {محمدؐ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں۔ (بلکہ اس کی محبت ورحمت کا دامن وسیع تر ہے) یعنی وہ اﷲ کا رسول اور خاتم الانبیاء ہے۔}