اب ذرا یہ اقتباس پھر پڑھئے۔ ’’اے میرے پیارے مالک… اگر یہ دعویٰ مسیح ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں… تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعاء کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ کی زندگی میں مجھے ہلاک کر۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹)
ڈاکٹر عبدالحکیم
ڈاکٹر عبدالحکیم پورے بیس برس تک مرزاقادیانی کے حلقۂ عقیدت سے وابستہ رہا۔ پھر منحرف ہوکر ’’المسیح الدجال‘‘ اور ’’کانا مسیح‘‘ وغیرہ کے نام سے کتابیں لکھیں۔ اسی پر بس نہ کی۔ بلکہ ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کو ایک الہام شائع کر دیا کہ آج کی تاریخ سے تیس برس تک مرزاقادیانی فوت ہو جائیںگے۔ اس پر مرزاقادیانی نے ایک اشتہار نکالا۔ مضمون یہ ہے:
’’اس (ڈاکٹر) نے میرا نام کذاب، مکار، شیطان، دجال، شریر اور حرام خور رکھا ہے اور مجھے خائن، شکم پرست، نفس پرست، مفسد اور مفتری قرار دیا ہے… اس پر بس نہیں۔ بلکہ یہ پیش گوئی بھی صدہا آدمیوں میں شائع کی یہ شخض تین سال کے عرصے میں فنا ہوجائے گا… آج ۱۴؍اگست ۱۹۰۶ء کو پھر اس کا ایک خط مولوی نورالدین صاحب کے نام آیا۔ اس میں لکھا ہے۔ ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کو خداتعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ یہ شخص اس تاریخ سے تیس برس تک ہلاک ہو جائے گا… اس کے مقابل وہ پیش گوئی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم صاحب کی نسبت مجھے معلوم ہوئی۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں۔ وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ فرشتوں کی کھچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے پھر تو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جانا۔ ’’رب فرّق بین صادق وکاذب‘‘ اے میرے خدا صادق وکاذب میں فرق کر کے دکھلا تو جانتا ہے کہ صادق ومصلح کون ہے۔‘‘ (اشتہار ۱۶؍اگست ۱۹۰۶ئ، تبلیغ رسالت ج دہم ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۵۹،۵۶۰)
یعنی دو خداؤں میں ٹھن گئی۔ ڈاکٹر کے خدا نے کہا کہ مرزاقادیانی ۱۲؍جولائی ۱۹۰۹ء سے پہلے فوت ہو جائیںگے اور مرزاقادیانی کے اﷲ نے اطلاع دی کہ: ’’خدا کے مقبولوں پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔‘‘
نیز ڈاکٹر کو ایک مہیب خطرہ سے ان الفاظ میں خبردار کیا۔ ’’فرشتوں کی کھچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے پر تونے وقت کو نہ پہچانا۔ نہ دیکھا نہ جانا۔‘‘ اور پھر مرزاقادیانی نے دعاء کی۔ ’’اے میرے خدا صادق وکاذب میں فرق کر کے دکھا۔‘‘