کیا یہ ہیضہ تھا؟ ’’حضور مرزاقادیانی کے وصال کا باعث ہیضہ قرار دینا صریح جھوٹ بلکہ قانونی جرم ہے۔‘‘ (تصدیق احمدیت مصنفہ سید بشارت احمد صاحب احمدی)
لیکن مرزاقادیانی کے خسر نواب میر ناصر صاحب اپنے خود نوشتہ حالات زندگی میں فرماتے ہیں۔ ’’حضرت صاحب جس رات کو بیمار ہوئے۔ اس رات کو میں اپنے مقام پر جاکر سوچکا تھا۔ جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا۔ جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو آپ (مرزاقادیانی) نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے… دس بجے (صبح منگل) کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘
(حیات ناصر ص۱۴، مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی)
ہیضہ تھا یا نہیں۔ اس کا فیصلہ اطباء پہ چھوڑتا ہوں۔ یہاں تو یہ دیکھا ہے کہ آیا مرزاقادیانی کی دعائ: ’’اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے۔ اس کو صادق کی زندگی میں دنیا سے اٹھالے۔‘‘
قبول ہوئی یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو پھر سچا کون ہوا؟ (مولانا ثناء اﷲ صاحب کی وفات ۱۹۵۰ء میں ہوئی)
احمدی بھائیو! یہ ٹھوس واقعات ہیں۔ جنہیں تاریخ کے اوراق سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ تاویلوں سے نفس کو بہلایا جاسکتا ہے۔ لیکن حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ آپ حضرات میں ایک خاصی تعداد وکیلوں، پروفیسروں، مجسٹریٹوں اور ججوں کی ہے۔ پروفیسر اور جج کا کام ہی تلاش حقیقت ہے۔ سوچئے اور ڈھونڈئیے۔ شاید حقیقت وہ نہ ہو جو آپ سمجھنے بیٹھے ہیں۔ اﷲ آپ کے ساتھ ہو۔
مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب اور مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ اگر وہ کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا۔ کیونکہ کاذب ہے مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مرگئے اور اس طرح پر ان کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۹، خزائن ج۱۷ ص۳۹۴)
’’میں نے ڈپٹی آتھم کے مباحثہ میں قریباً ساٹھ آدمی کے روبرو یہ کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ سو آتھم بھی اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۱۱، خزائن ج۱۷ ص۳۹۷)