کم ہوتے جائیںگے۔ کیونکہ مجھے مسیح ومہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے… غرض یہ ایک ایسی جماعت جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ ہے… صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار… اس خود کاشتہ پودہ کی نہایت احترام اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ کرے کہ وہ بھی اس خاندان (مرزاقادیانی کا اپنا خاندان) کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو خاص عنایت کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنا خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج ہفتم ص۱۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹تا۲۱)
’’جب کابل کے ساتھ ۱۹۱۹ء میں (انگریز کی) لڑائی (امان اﷲ خان کے خلاف) ہوئی۔ تب بھی ہماری جماعت نے علاوہ اور کئی قسم کی خدمات کے ایک ڈبل کمپنی پیش کی… خود ہمارے سلسلہ کے بانی کے چھوٹے صاحبزادہ نے اپنی خدمات پیش کیں اور چھ ماہ تک ٹرانسپورٹ کور میں آنریری طور پر کام کرتے رہے۔‘‘
(جماعت احمدی کا سپاسنامہ بخدمت لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند مورخہ ۴؍جنوری ۱۹۲۱ئ) جہاد تو ٹھہرا حرام۔ پھر یہ ڈبل کمپنی اور صاحبزادہ صاحب کی جنگی خدمات کا جواز کیسے ثابت ہوگا؟ اور سنئے: ’’خلیفۃ المسیح‘‘ فرماتے ہیں: ’’عراق کو فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہایا اور میری تحریک پر سینکڑوں آدمی بھرتی ہوکر چلے گئے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۳؍ستمبر ۱۹۳۵ئ)
کس لئے؟ جہاد کے لئے؟ جہاد تو حرام تھا؟ خوشنودیٔ انگریز کے لئے؟ خواہ اﷲ ناراض ہی رہے؟ ظاہر ہے کہ جب آپ اﷲ کی وحی یعنی ممانعت جہادکی خلاف ورزی کریںگے تو خدا کا غضب بھڑکے گا۔ کیا انگریز کی رضا اتنی بڑی چیز تھی کہ خدائی غضب بھی یاد نہ رہا؟
جب ۱۹۲۹ء میں لاہور کے ایک آریہ راجپال نے حضورﷺ کے خلاف ایک کتاب رنگیلا رسول کے نام سے لکھی اور لاہور کے ایک نوجوان علم الدین نے اس کا کام تمام کردیا تو حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا۔ ’’وہ نبی بھی کیسا نبی ہے۔ جس کی عزت کو بچانے کے لئے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں… وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ وہ مجرم ہیں اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جوان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے۔ وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۲۹ئ)
بہت عمدہ مشورہ ہے۔ لیکن جب اپریل ۱۹۳۰ء میں اخبار مباہلہ (قادیان) کے مدیر مولوی عبدالکریم احمدیت سے الگ ہوکر مرزاقادیانی اور ان کے صاحبزادہ پہ تنقید کرنے لگے تو میاں محموداحمد صاحب نے کہا۔ ’’اپنے دینی اور روحانی پیشوا کی معمولی ہتک بھی کوئی برداشت نہیں