حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
بھی فرمالیتے تھے (3)اہلِ مدینہ اور مہاجرین جن مشکل حالات سے نبرد آزما تھے ان کے پسِ منظر میں آپ ﷺکا تبسُّم ان کے زخمی دلوں کے لیے مر ہم ثابت ہوتاتھا ؎ نہ پوچھ نسخہ مَرہَمِ جِراحتِ دل کا کہ اس میں ریزئہ الماس جزوِاعظم ہے ایک دن( دبلی پتلی ٹانگوں اور بھاری بھرکم علم والے صحابی)ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ درخت پر چڑھے (ٹانگیں نظر آئیں ) تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی،حضور ﷺنے پوچھا :کیوں ہنسے؟(وجہ عرض کردی تو) فرمایا:یہ ٹانگیں میزانِ عمل میں سب سے بھاری ہیں (4)سُبْحَان اللہِ! جب محفلِ رسول ﷺمیں آپ ﷺکے جاں نثار ہنستے اور ان کے نبی ﷺبھی مسکراتے (5)اللہ نے فرمایا:یہ کتنے ہی چمکتے چہرے ٭خنداں وشاداں (یہ نیکوکار) (6)کتاب وسنت میں ان فرحت انگیز مناظرکے بیان کے باوجود آج کل ان نیک انسانوں کی مسکرانے کی باتیں اس قدر چُھپائی جارہی ہیں کہ عام مسلمان کہنے لگے کہ اللہ کے نبی ﷺکی مجلس اور یہ ہنسی ؟ ؎ میرے لیے عجیب ہیں تیری یہ مسکراہٹیں جاگ رہاہوں یا تجھے دیکھ رہا ہوں خواب میں عوام و خواص کو یہ کیوں نہیں بتایاجارہاکہ ان کا تبسّم نہ ہوتاتو دنیا کو نئی زندگی کیوں کر ملتی ؟ایک مسلمان کے لیے تو آج بھی ان کی باتیں غموں کے موسمِ خزاں میں بہار کا سماں پیدا کر دیتی ہیں ؎ آپ ؐنے اِک نگاہ میں سب کو نہال کر دیا پھول کو مسکراہٹیں ،موج کو بے کلی بھی دی(۵۳) حُسنِ معاشرت درگذر،صبرِجمیل اور صفحِ جمیل : اس عنوان میں موجودالفاظ رحمتِ عَالم ﷺکی و ہ صفات ہیں جن کے طفیل آپ ﷺکی شخصیّت سب سے نَمایاں تھی ،آپ ﷺیہی عادات اپنی اُمّت میں پیدا کرنا چاہتے تھے تاکہ ہر اُمّتی خوبصورت ادائوں سے مُزَیّن ہو، قرآنِ کریم سارے انسانوں کو آپ ﷺسے منسوب اعلیٰ اخلاق اور انسانی اقدارکی تاکید کرتاہے مثلاً:عفوو کرم کے سلسلہ میں جو کچھ فرمایاان میں سے ایک ’’صفحِ جمیل ‘‘ہے اللہ تعالیٰ اس کا ذکر یوں کرتے ہیں :’’وَإِنَّ السَّاعَۃَ لآتِیَۃٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ‘‘(7)(قیامت بہر حال آنے والی ہے لہٰذاآپ(ﷺ) ان سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر کردیں )اس آیت میں پیغمبرﷺکے ذریعے لو گوں کو یہ حکم دیا گیاہے کہ وہ لوگوں کی ہٹ دھرمی ، غلطیوں اور مخالفتوں کے مقابلہ میں محبّت اور نرمی کا مظاہرہ ،ان کے گناہوں سے چشم پوشی کریں اور حُسنِ کرم کامظاہرہ کرتے ہوئے ان پر مہربانی کریں ،ان اخلاقی پھولوں کی خوشبو سے انسانی معاشرہ معطّر ہوتا جائے گا اور لڑائی