حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
چاہیے تھی ، انصار کو یہ پسند ہے ۔(24)حضرت اَرنب رضی اللہ عنہا کے ذکرِ مذکورہ میں ہی حضرت جمیلہ رضی اللہ عنہا ’’اَلمُغْنِیَّۃُ‘‘کاتذکرہ ملتاہے۔ خلاصہء کلا م یہ ہے : ٭شادیوں کے موقعہ پر ذوقیہ و حربیہ اشعار کہنے والی جن چار خواتین یا بچیوں کا ذکر ملتاہے ،ان کا لقب ’’اَلمُغْنِیَّۃُ‘‘ تھا،خلاصہ:ذوقی اشعار میں ترنّم کی اجازت دے کر حضور ﷺنے جس فنِ لطیف کی سر پرستی فرمائی ،وہ موجودہ خُرافات بے پردگی،بے حیائی ،ساز،باجے وغیرہ سے خالی غناء تھا ،جس پرموجودہ گانے بجانے کو قیاس نہیں کیا جاسکتا،جبکہ اس فن کوآپ ﷺنے انسانی معاشرت کا حصّہ سمجھا ؎ ہو نہ یہ پھول تو بُلبل کا تَرنّم بھی نہ ہو چمن بھر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو ذوقیہ ،حربیہ اور پُر حکمت اشعار ادب کی جان ہوتے ہیں کوئی زندہ دل قوم ان سے خالی نہیں ہوتی نبی رحمت ﷺنے اپنی اُمّت کو اس کی اجازت دی۔ہم نے اپنی کتاب ’’عہدِ نبوی ﷺکی قرآنی خواتین ‘‘میں ایسی پچیس صحابیات کے نام لکھے ہیں جنہیں شاعرات بھی کہا جاتا تھا ان میں سے حضرت خنسآء رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺکو اپنا کلام سنایا اور حضرت محمد ﷺنے ان کی تحسین فرمائی (25)آپ ﷺکے اس طرزِعمل سے مسلمانوں کو ذوقِ لسانیت کے ذریعے اظہار ِخوشی ،عبرت انگیزی ،قلبِی سوزوسازاور اجتماعی ترانوں کا جواز ملا ؎ یہ غنیمت ہے کہ ان کی آنکھوں نے پہچانا ہمیں کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں خُلاصۂ کلام یہ کہ ہمارے نبی محترم علیہ السّلام شاعرانہ کلا م کو (بغیر ساز کے )مترنّم بھی سنتے اور بغیر ترنّم بھی سنتے ،اپنی محافل میں سنتے ،اپنے اسفارِجنگ وحرب کی زینت بھی بناتے اور پڑھنے والوں کی اصلاح بھی فرماتے اور تحسینی کلمات کہہ کر ان کو خوش بھی فرماتے تھے اور بعض اوقات نقد انعام بھی دیتے تھے حضرت کعب بن زھیر رضی اللہ عنہ کوچادر اڑھائی اور حضرت ابو مخذورہ رضی اللہ عنہ کو خوبصورت اذان پڑھنے پر چاندی عنایت فرمائی تھی ۔(26) ؎ فکر کی اونچائی سے گذر کر بڑے بڑے انعام ہیں پائے(۹۳)بیت بازی، مسجدِ نبوی اور مشاعرہ (مذہبی ڈائیلاگ): کیسے کیسے موتی اللہ کے رسول ﷺنے جمع کیے،ان میں چمک اور نور پیدا ہوا جس کی روشنی سے پوراعالم منوّر ہے،آپ ﷺکے شاعر صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں بھی اشعار پڑھتے تھے اور اپنے کلام سے جہادِ لسانی بھی