حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
باب:(۹) عِطریات وماکُولاتٗ خُدائے لم یزل نے ان کو جملہ اوصاف سے ایساسجایا کہ صدیوں سے ان کی تعریف و توصیف جاری ہے اورابھی باقی ہے۔ان کی باتوں سے پھول جھڑتے اور ان کے اشاروں پہ لوگ جان قربان کرتے تھے ،ان کے پسینے سے خوشبو آتی تھی ۔اس کے باوجود تعلیمِ اُمّت کے لیے عطر ،مشک و عنبر اور منزّہ و معطّر ماحول سے اُنس رکھتے تھے پیاز سے آنے والی نا پسند بو ہوتی ہی کتنی ہے، جس سے بچنے کی تاکید فرمائی اور یہ فرمایا کہ فرشتوں کوایذاء پہنچتی ہے، اس لیے مسجد میں آؤ تو لہسن و پیاز کھا کر نہ آئو ! انسانوں کے معاملے میں وہ بہت حساس تھے ،ان کے لیے بدبو دار ماحول کیسے گوراہ کرتے ؟اس لیے نمازوں ،جمعات، عیدین ،ملاقاتوں ،محافل ،تعلیم گاہوں اور مساجد میں خوشبو کی ضرورت کو شدید تر محسوس کیا، میاں بیوی کے باہمی پیار و محبّت کو عطر یات سے مزیّن کردیا ،عطریات و ماکولات میں ان کا ذوقِ سلیم بہت معیاری تھا ؎ افلاک امامت کا تجھے بدرنہ سمجھے بے قدر ہیں ظالم کہ تِری قدر نہ سمجھے اللہ کے حبیب ﷺکے کھانے پینے اور خوشبو یات میں ذوقِ لطیف کی مستندو محبوب روایات اس باب کی زینت ہیں ۔