حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
نبی اکرم ﷺنے فرمایا :حَسْبُکِ؟: ’’کیا جی بھر گیا ؟میں نے عرض کی :’’جی ہاں ‘‘آپ ﷺنے فرمایا : ’’فَاذْ ھَبِیْ‘ ‘اچھا تو جائو۔(17)ملاحظہ :امام طحاوی رحمۃاللہ عنہ نے لکھا ہے:وَھِیَ حِیْنَئِذٍلَمْ تَبْلُغْ مَبْلغَ النِّسَآئِ فَلَمْ یَلْحَقْھَا العِبَا دَات‘‘(18)یہ اُس زمانے کی بات ہے جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمر تھیں کہ ان پر ابھی بلوغت وغیرہ کے احکام اِسلام لازم نہیں تھے ۔ ملاحظہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کم سنی کی شادی پر الگ سے طویل بحثیں ہیں ، یہاں مسئلہ حجاب کی وضاحت کے لیے قول لکھ دیا گیا ہے ،اِس قسم کی سر گرمیوں میں آپ ﷺیاتو بنفسِ نفیس شرکت فرماتے یا دیکھ کر شرکت اور اپنی خوشی کا اظہارفرماتے تھے۔ آگے چند واقعات آرہے ہیں کہ آنحضور ﷺنے اپنے عُشّاق کے ساتھ مختلف مقابلوں میں شرکت کی ۔آپ ﷺعربوں کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے،کشف الخفاء میں صفحہ۲۷۸۸،۲۷۹۰پر دومقولے لکھے ہوئے ہیں (۱)لوگ اپنے آباء کے مشابہہ ہوتے ہیں (۲)لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں ،ان دونوں حقیقتوں کو آپ ﷺنے اپنی تعلیمات سمجھانے کے لیے سامنے رکھا، مثلاً : تیر چلانے کی ترغیب دی تو فرمایا:تیر چلائو! تمہارے باپ حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام بھی یہ کام کرتے تھے اور خود آپ ﷺکی حیثیت بادشاہِ وقت سے بڑھ کر تھی اس لیے کھیلوں اور جہادی قوت کی تیاری میں آپ ﷺکی دلچسپی ایک بہت بڑے انقلاب سے خالی نہ تھی ،اس عمل کی برکت سے ہر صحابی رضی اللہ عنہ اور ہر صحابیہ رضی اللہ عنہا اور ہر بچہ مجاہد تھا ۔(۸۲)کھیلوں ،ورزش اور اونٹ دوڑ کے مقابلے : آپ ﷺنے اپنے جاں نثاروں کا یہ مزاج بنایا تھا کہ وہ حق پر ہیں اس لیے کسی بھی مقابلے میں کامیابی اُن کی ہے اسی نظر یہ کی وجہ سے سیّدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے مشرکین سے اس بات پر مناظرہ کیاکہ روم والے فارس والوں پہ غالب آئیں گے چنانچہ سورۃ الروم ان کی تائید میں اتری، فارس والے مغلوب ہوئے اور مجوّزہ انعام یا شرطیہ اونٹ سیدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے ان سے لے کر لیے (19)نیکی میں مقابلہ بازی کی یہ سوچ حضور ﷺنے دی ٭ قرآنِ کریم آپ ﷺکے اخلاق کا صحیح عکاّس ہے،مثلاً:اللہ نے فرمایا: ’’فَاسْتَبِقُوْاالخَیْرَات‘‘ (20) (بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو !)چنانچہ بہت سے نیکی کے کاموں میں آپ ﷺنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مقابلے کروائے ، خود آپ ﷺکو بھی کوئی شخص مناظرے کا چیلنج کر تا تو فوراًقبول فرماتے ٭ مباھلہ کا واقعہ معروف ہے، جس کا ذکر سورئہ اٰلِ عمران آیت نمبر ۶۱ میں ہے ٭حضرت رِکا نہ