حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
کا نام حضور ﷺکے سامنے لیاگیا ،آپ ﷺنے فرمایا:اس کا نام کیا ہے ؟عرض کیاگیا ’’فتح ‘‘ فرمایا :(اس نے اہلِ اسلام کے درمیان روشنی کے لیے اَلسِرَّاج(چراغ )جلائے ہیں اس لیے )اس کانام فتح نہیں ’’آج کے بعد اَلسِّرَاجُ‘‘ہے اب یہ سمجھنے میں ذرا بھی شک نہ ہو نا چاہیے کہ اجتماعی جگہوں ،گزر گا ہو ں اورجہاں لوگ جمع ہو کر اپنے ضروری اُمور انجام دیتے ہوں ان میں روشنی کاانتظام حُضور ﷺکو کتنا پسند تھا ،اسی طرح آپ ﷺچاہتے تھے ایسی جگہوں پر تعفّن نہ ہونا چاہیے اسی لیے عہدِ نبوی ؐمیں ہر جمعہ کو مسجد نبوی ؐمیں خوشبو کی دُھونی دی جاتی تھی ،اپنے مُتّبعین کو بنی رحمت ﷺنے فرمایا:ہر جمعہ کو مسجد میں دُھونی دیا کرو!(24)حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی مسجد میں روشنی اور خوشبو کی دُھونی دینے کا عمل جاری رکھا(25) روشن راہیں ،منوّر اوردیدہ جہان اللہ کو کس قدر پسند ہے ؟قرآنِ کریم میں اللہ اس کی قسم کھاتے ہیں :’’وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ‘‘(26)(اور قسم ہے صبح کی جب و ہ روشن ہوجائے)مسجد کا ماحول خوشبودار رکھنے کے لیے اور بدبو کو مسجد سے دُور رکھنے کے لیے یہ ارشادات فرمائے(۱)فرمایا:جوشخص لہسن کھائے ہماری مسجد میں نہ آئے (۲)وہ اپنے گھر میں ہی بیٹھے (۳)اس کی بو کو آگ سے ختم کیا کرو!(۴)(تم جب یہ کھا کر آتے ہوتو ) فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔(27)دُھونی: یہ اس وقت کا سپرے تھا جو دنیا میں اب بھی جاری ہے ۔ حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اس فن (دُھونی اور بخورکے ذریعے ماحول کو معطّر رکھنے )میں خُصوصی مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کی نگرانی میں یہ کام مسلسل جاری رہتا تھا اسی لیے ان کالقب ہی ’’المُجَمِّرُ‘‘ معروف ہوگیا ،قبرِرسول ﷺ(جہاں لوگوں کی آمدورفت کثرت سے رہتی تھی وہاں بھی فضاکو انسان دوست بنانے کے لیے بخوروغیرہ)کی دُھونی دی جاتی تھی ۔(28)دینِ ابراہیمی اور مساجد کی نظافت: نبی رحمت ﷺکا مسجد کی نظافت کا اس قدر اہتمام اس قرآنی حکم اورسُنّتِ ابراہیمی کی عملی تفسیر ہے :’’وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ‘‘(اور ہم نے ) ابراہیم اور اسمٰعیل کو کہا:تم طواف ،اعتکاف اور رُکوع و سجد ہ کرنے والوں کے لیے میرے گھر کو صاف رکھا کرو!)(29) حُضور ﷺکی بیت اللہ سے قلبی تعلّق میں حبِّ الٰہی اور آبائِ صالحین کا ذوق صاف دیکھا جاسکتاہے یہ جگہیں یہ عمارتیں منیٰ، مزدلفہ، عرفات،بیت اللہ اور بیت المقدس ؎ بتارہی ہیں کہ ماضی کی یاد گار ہیں ہم ان ہی چھائوں میں شامِ جنوں سے پیار کیا