حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
باپ محمّدہے اور تیری ماں عائشہ !(18)یہ جملہ جو اوپر لکھا گیا کسی ایک یتیم یا نادار کا واقعہ نہیں ہے ، کئی غریبوں کی مشتر کہ کہانی ہے کہ آنحضور ﷺنے ان کو اعزازی طورپر اپنے اہلِ بیت میں شامل کر کے قابلِ رشک بنا دیا ،آج بھی ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے تذکروں میں موجود ہے کہ وہ عمر بھر اس حوصلہ افزائی کو اپنے لیے باعثِ صد افتخار سمجھتے رہے ۔ ؎ مجھے تیری محبّت نے ایک روشنی بخشی میں اس دنیا کو پہلے سے اب بہتر دیکھ سکتاہوں عہدِ نبویﷺاور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم ،خُلَفائِ راشدین رضی اللہ عنہم میں ایّا م ِ عید کے دوران ایسے واقعات پیش آتے رہتے تھے ، ان کی یہی عید خوشیوں سے لبریز ہوتی ، جس میں وہ کسی ضرورت مند کا سہارا بن جاتے یا ان کے گھر میں کسی یتیم کی اعانت وپرورش کا نظام شروع ہوجاتاتھا، اس خدمتِ خلق ،غریب نوازی اور اعانت کو وہ یادِ الٰہی کا حصہ سمجھتے تھے۔ ؎ یاد ہے شادی میں بھی ہنگامہ ء ’’یَارَبْ‘‘مجھے سُجۂ زاہد ہوا ہے خندہ زیرِ لب مجھے(۹۲)خوشی کے ا یّام ،اشعار ،قومی ترانے اور فنِ لطیف کی سر پرستی: اللہ کے رسول ﷺانتہائی باذوق تھے ، آپ ﷺخود بھی ترنّم اور لے کے ساتھ قرآنِ پاک پڑھتے اور خوش الحا ن صحابہ رضی اللہ عنہم کو داد بھی دیتے تھے ۔حضرت دائو د علیہ السّلام اور پرندوں کی تسبیح خوانی کا تذکرہ آپ ﷺنے با رہا فرمایا ،اسفار میں مترنّم کلام پڑھنے والے کئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین تھے جن کو ’’حَادِیُ رَسُول اللّٰہ‘‘لقب بھی دیا جاتاتھا جو بلاشبہ گھنٹوں اللہ کے رسول ﷺ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور کاروان محمدی ﷺکے اونٹوں اور گھوڑوں کو توانائی و فرحت بخشتے،اس کے ساتھ ساتھ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے غم غلط کرتے رہتے تھے جو ہجرت کی وجہ سے وطن اور عزیزوں سے جداہوئے۔خوشی کے مواقع (عید اور شادی کے اَیّام )میں بھی آپ ﷺکو مترنّم کلا م سنتے دیکھا گیا ۔آپ ﷺڈھول کی تھاپ ،سارنگی کی آواز اور دیگر مصنوعی چیزوں کے سخت خلاف تھے ، جنہوں نے حُسنِ آواز کو داغدار کر کے انسانوں کو گمراہ کر دیااور فطرت بول اٹھی ؎ تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی اور تیری بزم سے اب کوئی اُٹھا چاہتاہے حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک پروردہ انصاری لڑکی کی شادی انتہائی سادگی سے کر دی ،رسول اللہ ﷺتشریف لائے تو فرمایا:دلہن کو تم نے روانہ کر دیا ؟ لوگوں نے