حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ضروری ہوگئی ہے دل کی زینت مکین پہچانے جاتے ہیں مکان سے اللہ اور اس کے حبیب ﷺنے نہ زینت سے روکا ،نہ عورت کی محبّت سے منع کیا،نہ دولت کو شجرِممنوعہ قرار دیا،نہ اظہارِزینت کو حرام کیا ، نہ خوشبو کو جسم و جان میں بسالینے کی نفی کی ،نہ خوش خورا کی ،خوش لباسی ،خوش تحریری و خوش تقریری اور خوش فہمی خوش خلقی پہ قدغن لگائی ، ان سے اللہ اور اس کے محبوب کیوں روکتے ؟یہ تو ایک بندئہ خداکی ضرورتیں ہیں ،تاہم انسان پر اللہ نے یہ رحمت کردی کہ اپنے کلام اور اپنے نبی ﷺکے فرمان و عمل کو آئینہ بنا کر دنیا میں رکھ دیا تاکہ انسان عقلِ خداد اد سے یہ فیصلہ کر سکے کہ اس کے جسم و جان ،ماحول و معاشرت اور دین و ایمان کے لیے نعمتوں کا کتنا استعمال مفید ہے اور کتنا نقصان دہ ہے ،اس کا یہ کرم نہ ہوتا تو انسان بھٹک جاتا، اس کی دنیا بھی بر باد اور آخرت بھی۔ اسی لیے میرانیس نے یوں فریاد کی ؎ تقویتِ دل کوکرم سے ہے تیرے یارحماں ! نہیں مایو س کہ رحمت ہے تیری بے پایاں تعجب تو یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر جسمانی صحت کے لیے جو نعمتیں چھوڑنے یامحدود استعمال کا کہہ دے وہ ہم مانتے ہیں اور اس ’’پرہیز گاری ‘‘اور ’’حدود بندی ‘‘پر اسے رقم بھی دیتے ہیں ایک انجینئر تعمیرِ مکان میں ،ترتیبِ کا رخانہ میں اور اصولِ راہداری میں جو فرمادے وہ قبول ہے خواہ ہزار منصوبے بند ہوں اوردل کی تمنّائوں پہ پانی پھرے ۔ لیکن وہ حکیم وبصیر ذات ،مہربان و شفیق خداہمارے فائدے کے لیے کچھ محدود چیزوں کو روک دے، وہاں یہ زبان شکر گزاری کی جگہ شکوے، شکایت شروع کر دے یا اس کے مقا بلے میں خودانسان کی تراشیدہ تجویزوں کو بروئے کار لائے یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟اک مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ کسی بھی صورت اللہ سے غافل نہ ہو جہاں بھی رہے اور جو کچھ بھی کرے ؎ حرم سے دیر اٹھ جانا نہیں عیب اگر یاں ہے خُداواں بھی خداہے(۲۱) زینت و آرائش کے فطری طریقے اور بندگی : آبروئے جہاں سیّدالمرسلین حضرت محمد ﷺنے انسانوں کے لیے زیبائش کے جو اصول مرتّب فرمائے ان کاتعلق وحیِ الٰہی اور فطرتِ سلیمہ سے ہے ،اُن کی تعلیمات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السّلام جدّالانبیاء ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے یہ مقام بخشا کہ ان کو اپنا خلیل (خاص دوست ) ہونے کا شرف عطاکیا اور لوگوں کا امام بنایا ان کی وہ امامت آج بھی موجود ہے ،سیدّ نا محمد رسول اللہ ﷺکی مبارک شریعت میں ایسی عادات وخصائل اپنانے کی