حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ہے اور انسان کے اوقات اپنے اندرحُسنِ شریعت اس وقت لے آتے ہیں ،جب انسان ان کو تعلیمی ،تبلیغی ، معاشی اور حُقوق العباد کی ادائیگی میں صرف کر لیتاہے اور اپنے اوقات ، جان اور ایمان کو محفوظ کر لیتاہے ؎ اس کی اما ں میں جو کل کی اماں ہے وہ جس پہ مہرباں ہے خدا مہرباں ہے سُطورِ بالاکاخلاصہ یہ ہے کہ (۱)ہماری جانوں کے آقا حضرت محمدﷺرزقِ حلال یعنی روزی طلب کرنے میں ہم سے جمال و ترتیبِ کار کامطالبہ کرتے ہیں (۲) ہر کاری گر ،صنعت کار اور مل اونر سے اُمّید رکھتے ہیں کہ ایسی چیزیں تیار کریں جن سے فنی مہارت کا ثبوت ملے اور اقوام ِ عالم میں آپ ﷺکے ماننے والوں کی نیک نامی ہو ۔(۳)حُسنِ اوقات،حُسنِ مَعیشت اورحُسنِ اقوام: اوقات کا حُسن یہ ہے کہ ان کو طلبِ رزق اور صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے ۔اس خُلاصۂ تعلیمات کا خُلاصہ یہ ہے روزی کے وہ اعلیٰ ذرائع جن سے مسلمان قوم سر بلند ہو، ان میں انسانی صلاحیتوں اور ان کی زندگی کے قیمتی لمحات کو صرف کرنا حُسنِ رزق بھی ہے جمالِ کار بھی اور تزئینِ اوقات بھی ہے ۔ اس لیے اب اس مجموعہ ء محاسن یعنی صنعت کاری سے متعلّق لکھا جاتاہے جو وقت کی آواز ،ملک کا وقار اور اقوامِ عالم میں مسلمانوں کی سربلندی و حُسنِ اعتمادی کا ذریعہ ہے ۔ ؎ چاہیے اچھّوں ،جتنا چاہیے یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے اسلام متحرّک زندگی اور ترقی پذیر رفتار کا ر چاہتاہے، اس کے کسی گوشے میں کاہلی و بیکاری ،اپاہج پن اور بے روزگاری کے لیے کوئی گنجائش کیسے باقی رہ سکتی ؟یہاں تو یہ پسند ہے کہ وقت جیسی نعمت کو تعلیمی ،معاشی نظم میں خرچ کریں ۔حُضور ﷺکی صُحبت میں طویل عرصہ رہنے والے صحابی مُعلّم الامۃامام الفقہا ء حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو یہ فرمایا کرتے تھے کہ :’’اَنیّ لَاَکْرَہُ اَنْ اریٰ الرَّجُلَ فَارِغًالَّا فِی عَمَلِ الدنیاَوَلَا فِی الْاٰخِرَۃِ‘‘ترجمہ:میں اس کو ناپسند کرتاہوں کہ آدمی کو فارغ دیکھو ں ،یعنی نہ دنیا کے کسی کام میں مشغول ہوا ور نہ آخرت کے کام میں ۔(55)رسولِ رحمت ﷺنے اپنے تلامِذہ اور عُشّاق کی جو تربیت فرمائی تھی وہ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے فر مان سے عیاں ہوگئی ہے کہ حضور ﷺکو پسند تھا کہ ان کے اُمّتی اسی طرح مصروف زندگی گذاریں جس طرح خودانہوں نے گذاری ۔اس دنیا میں آپ ﷺنے صرف تریسٹھ سال مثالی زندگی