حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے :ایک آدمی مجھے (ظاہر )ایمان ،اعمال و اخلاق کی وجہ سے بہت پسند آجاتا ہے، جب مجھے پتہ چلتاہے کہ یہ کوئی کام نہیں کرتا تو میری نگاہوں سے گر جاتاہے۔ اللہ کے آخری پیغمبر ﷺنے اپنے ماننے والوں کی یہی ذہن سازی کی تھی ۔ نبی رحمت ﷺنے دستی کام کرنے والوں کو یعنی (دستکاری )کو بہت پسند فرمایا(58)دو بڑے صحابیوں کے اقوال سے جیساکہ اوپر لکھا گیا ، اب ائمہ دین کا نظریہ پڑہیے۔امام ابنِ تیمیہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام ائمہ شافعی واحمد اور ابن الجوزی رحمۃاللہ علیہم( جیسے مفکّر ین ان احادیث کی بناء پر) فر ماتے ہیں :کار خانے اور صنعتی فیکٹریوں کا وجود فرضِ کفایہ ہے ، اس لیے کہ لوگوں کی ضروریات ان کے بغیر نامکمّل رہتی ہیں اگر کچھ لوگ کام جانتے ہیں (ملک میں اِ نجینئر ، انڈسٹریلسٹ)ہیں لیکن وہ اپنے فنون کو بروئے کار نہیں لاتے تو اسلامی ملک کے امیر (صدر ،وزیر اعظم اور چیف جِسٹس وغیرہ )ان کو مجبور کریں گے کہ وہ (انڈسٹریز )لگائیں ۔(59)تاکہ ان کے عُلوم سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچے ، ان صاحبانِ علم و ہُنر کے لیے بہت مُناسب ہے کہ وہ زندگی کے آخری لمحات بھی مخلوقِ خُدا کی خدمت کے لیے وقف کردیں ؎ کہتے ہیں رضا کبھی کہیں پہنچا ہے بیٹھا ہے جہاں تھک کے، وہیں پہنچا ہے قرینے اور سلیقے سے رکھی ہوئی اشیائِ ضرورت اور کائنات میں موجود خام مال کو بامقصد و منافع بخش مصنوعات میں بدل کر مارکیٹ میں لانا اللہ کو بہت بھلا لگتاہے اسی لیے اس نے اپنی کاری گری کی مثال دے کر سمجھایا کہ :وَأَکْوَابٌ مَّوْضُوعَۃٌ . وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَۃٌ.( میں نے جنّت میں تمہارے لیے ) آب خورے (قرینے سے ) رکھے ہوئے اور (تمہارے بیٹھنے کو ) گائو تکیے، قطار کی قطار میں لگے ہوئے ۔(60)(۸۸)امُورِ زندگی میں حُسنِ ترتیب : حضرت محمد ﷺکی خدمت میں ایک قافلہ آیا، محبوبِ خُدا کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی اہل کارواں بے تابانہ اونٹوں سے اترے اور درِ حبیب ﷺپہ سلام کے لیے حاضر ہوگئے لیکن ان کے سردار حضرت اشج رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری باندھی ،تھیلا کھولا ،سفید لباس نکال کر پہنا اور (پُر سکون ، متانت و ادب کی تصویر بنے بارگاہِ رسالت )میں حاضر ہوگئے ،حُضور ﷺ(یہ سب آداب اور ترتیبِ اُمور دیکھ کر خوش ہوگئے ،آپ ﷺ) نے فرمایا:اے اشج !تمہارے اندر دو عادتیں (ایسی دیکھی ) ہیں جواللہ اور اس کے رسُول کو بہت پسند ہیں ،ایک’’ حِلم‘‘ یعنی بردباری درگزری اور معافی اور دوسری ’’اِنَاۃ ‘‘یعنی آہستگی ،مہلت سنجیدگی اور وقار ہیں ۔(61)اللہ کے رسُول ﷺنے