حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
(۳)بولنے والا سیکھتا کم ہے سکھاتازیادہ ہے، سننے والے کو دوسروں کی صلاحیتوں سے استفادہ آسان ہوجاتاہے، اس سلسلے میں حضور ﷺکے ارشادات میں سے ایک یہ ہے :آپ ﷺنے فرمایا’’مَنْصَمَتَ نَجَا ‘‘(28)یعنی جس گفتگو (لایعنی باتوں سے ) نہ دین کا اور نہ دنیا کو کوئی فائدہ ہو ان سے بچنے والابہت سی مشکلات ،زبان کی تباہ کاریوں اور اس کے غلط استعمال کے نقصانات سے بچ جاتااور اس کی وجہ سے جو گرفتِ الٰہی ہوتی ہے،اس سے محفوظ ہوجاتاہے ،یہ خاموشی ہی ہے جو کبھی قبرو حشر کی وحشتوں کو یاد دلاتی ہے، اور کبھی شوقِ جنّت میں رُلاتی ہے، اور انسان گناہوں سے پاک ہو تاجاتاہے۔ بقولِ غالب ؎ رونے سے اور عشق میں بے باک ہوگئے دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہوگئے(۵۹)خاموشی ،مسکراہٹ ،خلوت و جلوت اور ہنسی: کمالاتِ انسانی اور خوبصورتی کے جتنے لوازمات ہوسکتے تھے وہ اللہ نے اپنے محبوبِ مکرّم سیدنا حضرت محمد ﷺکی ذات والا صفات میں جمع فرمادیے تھے، اگر چہ آپ ﷺہمیشہ اپنی اُمّت اور نفاذِاسلام کے لیے مسلسل متفکّر رہتے تھے ،خلوتوں میں اپنے رب سے مناجات کرتے تھے ، لیکن جب کسی سے ملتے یا کہیں میرِ مجلس ہوتے تو تبسّم آپ ﷺکے ہونٹوں سے عیاں ہوتا جس کی کشش سے اہلِ مجلس کے دل آپ ﷺکی طرف متوّجہ رہتے۔ انسانی چہرے کا یہ حُسن ہے کہ وہ ضرورت پر مُسکرائے تو بروقت حُزن و ملال کا اظہار بھی کرے ،کبھی اس پہ جلال نظر آئے تو کبھی جمال دکھائی دے ،حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا گواہی دیتی ہیں کہ مسکراہٹ آپ ﷺکے ہونٹوں پہ ناز کرتی تھی ،لیکن بادلوں کو چھائے ہوئے دیکھتے یا ہوائوں کو چلتا دیکھتے تو فکر کے آثار چہرہ مبارک پر عیاں ہو جاتے ،اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا :اے عائشہ ! مجھے ڈر لگتاہے کہیں یہ علاماتِ عذاب نہ ہوں ، ایک پہلی قوم پرایسا ہی توہوا کہ وہ اس ہوا کو بارش کی علامت سمجھ بیٹھے جو ان پر بطورِ عذاب آرہی تھی (29)عام سطحی سوچ اور نبی کی گہری سوچ میں یہی فرق ہوتاہے وقت کے نبی ہرواقعہ کے دونوں پہلوئوں پہ نظر رکھتے ہیں ، غالب نے صحیح عکاسی کی ہے ؎ یک جانب اے اسد شبِ فرقت کا بیم ہے دام ہوس ہے زلفِ دلآویز یک طرف اب دو مناظر تصوّر کی نگاہ سے دیکھے (۱)جس دن آپ ﷺہجرت کر کے مدینہ طیّبہ میں داخل ہورتھے، اور شہر کے لوگ استقبال کے لیے نکلے وہ جمعہ کا دن تھا ،آپ ﷺکی ناقہ (اونٹنی )دائیں بائیں دیکھتی چل رہی تھی مدینہ کی