حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
سفید بالوں کا مستقل باب ہے ،اس میں آپ ﷺکے سفید بالوں کی تعداد بہت کم لکھی ہے تاہم یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺکو اللہ نے اس قدرتی حُسن سے بھی مالا مال فرمایاتھا بقول میر انیس ؎ پاکیز گی نسب میں بزرگی صفات میں شیر ینی کلام ، حُسن بات بات میں(۱۲۷)حُسنِ آباء ،بزرگی،سنجیدگی،متانت اورخضاب: حضرت محمد ﷺنفسیات ،اِنسانی طبائع اور ان کی خُصوصیات کا علم بھی رکھتے تھے ،اس لیے کسی عمل کی ترغیب دینے کے لیے مرغوباتِ مخاطب کو یاد رکھتے تھے ، آپ ﷺجانتے تھے کہ مکّہ و مدینہ اور حجازکے لوگ اپنے آباء واجداد کی تقلید کو آسان سمجھتے ہیں ،اس لیے فرمایا : یہ قربانی تو تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سُنّت ہے ۔(17)اس طرح کی اور بے شمار مثالیں ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ سفیدبالوں کے بارے میں بھی آپ ﷺنے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حوالہ دیا۔کہ سب سے پہلے یہ دولت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کو ملی کہ ان کے بال سفید ہوئے،ان سے پہلے کسی کو یہ نعمت نہ ملی تھی ،انہوں نے ایک دن پانی میں یا آئینہ میں اپنا روئے مبارک دیکھا،سفید بال سر اور داڑھی میں نظر آئے تو اللہ تعالیٰ یوں ہی سے ہم کلام ہوئے :حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے عرض کی:اے میرے پا لنہار !یہ کیا ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے ابراہیم (علیہ السّلام )!یہ بزرگی (کی علامت )ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے کہا:اے میرے پرور دگا ر !میری بزرگی میں اضافہ فرما! (18)اس اندازِ کلام اور بیانِ واقعہ سے نبی علیہ السّلام نے لوگوں کو سفید بالوں کی عظمت سے باخبر فرمایا ،اس طرح ان کے قلب ونظر میں ایک ایسی چیز(سفیدبال) بڑائی اور بزرگی کا ذریعہ قرار پائی جسے وہ اچھا نہیں سمجھتے تھے ؎ رقم ہے جس پہ میرے آبائو اجداد کا شجر میرے گھر کی کھدائی میں وہی کتبہ نکل آیا آنحضرت ﷺکی اس حکمتِ موعظت کی وجہ سے آج آپ ﷺکی پوری اُمّت بھی یہ سمجھتی ہے کہ بالوں کی سفیدی نقص نہیں ،بزرگی کا حُسن ہے اور بے شمار لوگوں میں سفیدی کے بعد سنجیدگی ،وقار اور متانت دیکھی گئی ، جو بجائے خود ایک حُسن ہے یعنی سفید ریشی حُسن گر ہے ۔بایں ہمہ آپ ﷺنے مجبور نہیں کیا کہ کوئی اُمّتی اس سفیدی کو تبدیل کرنے کے لیے مہندی و غیرہ استعمال نہ کرے ،آپ ﷺنے اجازت دی ،ترغیب بھی دی اور اس بارے میں احتیاط کا حکم بھی دیا کہ بال اتنے سیاہ نہ ہوجائیں کہ اللہ کا عنایت کردہ وقار ہی زائل ہوجائے گا،چہرے کا نور چھپ جائے اور سفیدی سیاہی میں بدل جائے۔اور روزِ قیامت اس ’’روسیاہی ‘‘کی وجہ سے