حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
حضرت سہل بن عمرورضی اللہ عنہ نے قُبولِ اسلام سے پہلے جو خطاب اسلام کی مخالفت میں کیا تھا ، اُسے سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی کہ وہ ان کے اگلے دانت توڑ دیں ، تاکہ سہل رضی اللہ عنہ خلافِ اسلام نہ بو ل سکیں ۔آپ ﷺنے فرمایا:نہیں اے عمر!(شاید یہ زبان اسلام کی حق میں بولے اور )تمہیں خوش کر دے (48)چنانچہ ایسا ہی ہوااور اُن کی خطابت پر ہمیشہ نبی اکرم ﷺ،خلفائِ راشدین اور مسلمانوں کو ناز رہا ؎ جس سیا ہی سے سینے بھی تاریک تھے وہ سیا ہی دلوں سے اترنے لگی احترامِ شرافت جو بڑھنے لگا فطرتِ بداچھلنے بپھر نے لگی الغرض:شاہِ دوعالم سیدّنا مُحمّد کریم ﷺہمیشہ زبان دانی ،خطابت ،خوش آوازی ، سخنوری اور ادبی خدمات کی سر پرستی فرماتے رہے ۔یہ آپ ﷺکا طبعی ذوق تھا ، اسی پر آپ ﷺاپنی اُمّت کو لانا چاہتے تھے چنانچہ بے شمار ماہرینِ گفتگو نے اپنی فنی خدمات سے اسلام کو چار چاند لگا ئے،وہ آج اپنی حُسنِ ادا ، طرزِتکلُّم اور طریقِ استدلال کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ،زاد المعادج ۱ص۱۲۴پر’’ خُطَبَاء وشعْرائِ رسُول ﷺ‘‘ کے کارناموں اور ان کے اسمائِ گرامی کے لیے مستقل باب ہے،اسی طرح دیگر کتب میں بطورِ خاص اس فن کے لیے ابواب ہیں ۔(۹۸)شاعری ،منصبِ رسالت ،مردم سناشی اور ابلاغیات: شانِ رسالت ﷺکا پہلا مآخذ قرآن کریم ہے اس نے دوٹوک فرمادیا : شاعری آپ ﷺکے (منصب ومرتبہ ) کے مناسب نہیں ہے ۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا اور یہ ثابت کیا گیا کہ واقعی شاعری آپ ﷺکی رفعتِ شانی سے بہت نیچے کی چیز ہے تاہم اظہارِ خیال کا یہ خوبصورت اور متا ثّر کن ذریعہ نہ صرف آپ ﷺنے جاری رہنے دیا،مزید یہ کہ آپ ﷺنے اس فن کی اصلاح کو اپنے لیے لازمی سمجھا ،خلافِ شریعت طرزِ ادا سے لاتعلّقی کا اظہار کیا اور شیریں اور ایسے بامقصد شعروں کی حوصلہ افزائی فرمائی ، جن سے شجاعت اور بھائی چارے کا سبق ملتاہے۔ ؎ لکھوں گرشجاعت کااس کی بیاں قلم ہومیرا رستمِ داستاں آپ ﷺکو شُعَراء کی مُلَمّع سازِی ،جھوٹی تعریف اور فریب خوردہ کلام سے شدید نفرت تھی ۔اعلانِ نبوت سے پہلے بھی کسی نے آپ ﷺکو ایسے کلام کرتے نہیں دیکھا ۔ قرآنِ کریم نے بے فائدہ نظم یا نثر کو شیطانی تعلیم قرار دیتے ہوئے فرمایا : ’’ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً ‘‘ (49)((یہ لوگ ) ملمع کی ہوئی باتیں فریب دینے کے لیے کرتے ہیں