حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
سجدے میں دکھائی گئی اور میرا دل چاہا کہ جنت کے (انگوروں ،کھجوروں یا کیلوں کے گچھے )جو نظرآتے ہیں ان کو حاصل کر لیں (28)اللہ تعالیٰ نے متقی شخص کے لیے فرمایا :(اس کے لیے جنت میں )آرام ،خوشبو دار پھول اور نعمت کے باغ ہیں (29)حضورﷺکو پھل پسند تھے ۔ایک دن انگوروں کا گچھہ ایک بچے کو دیا کہ اپنی والدہ کو دے آئے(30) ؎ چاندنی مجھ کو سجدے کرتی ہے تیرے قدموں کی دھول ہوں میں تو(۱۰)اللہ ،اس کے رسول ﷺاور حسنِ انسانی کاذوق : جب ہم غائرانہ نگاہوں سے اس عالمِ وجود کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دوطرح کا جمال نظر آتا ہے :ایک وہ حُسن اور خوبصورتی جو انسانی دخل کے بغیر عالمِ وجود پر محیط ہے ۔ دوسراوہ حسن جو انسان کی خدادا د صلاحیتوں اور اس کی کو ششوں سے لباسِ وجود سے آراستہ ہوتاہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ دونوں قسموں کے بارے میں شریعت کے نقطہ ٔنگاہ سے گفتگو کریں او ریہ دیکھیں کہ کتاب و سنّت میں کس طرح حُسن کے مختلف مظاہر اور اس دنیا میں ان کے فلسفۂ وجود ی پر توجّہ دی گئی ہے اور کس طرح ان سے استفادہ کرنے اور عبرت حاصل کرنے کی تاکید کی ہے ۔سب سے پہلے یہ ذہن نشین کر لیا جائے کہ اللہ کو بھی یہ پسند ہے اور اس کے نبی و محبوب حضرت محمد ﷺکا بھی یہ ذوق ہے کہ انسان کا کو ئی کام خوبصورتی سے خالی نہ ہو۔ جب خداوندِعالم کی صفات معلوم کرنے کے لیے نبی رحمت ﷺکی روایات اور دعائوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں یہ تعبیر بہت زیادہ ملتی ہے :’’اِنَّ اللّٰہ جَمْیْلٌیُحِبُّ الجَمَالَ وَیُحِبُّ اَنْ یَّریٰ اَثْرنِعْمَتِہٖ عَلیٰ عَبْدِہٖ‘‘(31) (خداوندِعالم حسین ہے ،حُسن اور خوبصورتی کو پسند کر تاہے اور چاہتا ہے کہ اپنے بندے میں اپنی نعمت کے اثرات دیکھے) یعنی جس طرح اللہ حسین ہیں ،اس کی تخلیق کا شاہکار (انسان )بھی حسین ہے اس لیے وہ چاہتاہے کہ انسان نعمتوں کو باندازِاحسن استعمال کرے،انسانی عقل بھی اس بات کا دَرَکْ کرتی ہے ،اس لیے کہ اسی ذاتِ والا نے ہر قابلِ تصوّر حُسن کو خِلعتِ وجود سے نوازاہے، اس کا حسن اِنسان اور اس عالمِ رنگ وبو کے ہر محسوس و معقول حسن سے بہت اعلیٰ و رفع ہے۔ جس کی ضیاء پاشیوں میں حضرت محمد ﷺنے اپنے خادموں اور نوکروں کی تربیت کر کے دنیا کا امام بنادیا ؎ اس دور کی بھلائی جو ہوتی ہمیں نصیب روتے کبھی نہ آج کا قحط الرجال ہم جس کی سلامتی سے ملی ہم کوراہ ِحق اے کاش اس یقیں کو رکھتے بحال ہم!