حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
تیرے اوپر کتنی بھلی لگ رہی ہے۔(38)(۳)ایک دفعہ حضورِ اکرم ﷺکی نظر ننگے سر بچیوں پہ پڑی ،آپ ﷺنے ایک بڑی چادر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکو دی اور فرمایا :اس کے دو ٹکڑے کرو اور ان بچیوں کے سروں پہ ڈال دو!(39) جن بچیوں کے سر پہ حُضورِ اکرم ﷺنے وہ چادر رکھ دی جو سات آسمان اُوپر سے اللہ کی طر ف سے ’’یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ‘‘(40)کے ذریعے آپ ﷺکے ہاتھوں میں آئی ،ہمارے لیے مناسب نہیں ہے کہ ہم بچیوں سے اس چادر کو چھین کر اس عزّت کو خاک میں ملا دیں جو ان کو سات آسمانوں سے ملی ہے ۔بقولِ میر تقی ؎ خوبی کو اس کے چہرے کی کیا پہنچے آفتاب ہے اِس میں اُس میں فرق زمین و آسمان کا(۱۲۰)کاشانۂ نُبوّت ،دُلہن اور دُلہا کا جوڑا اور ذوقِ رَسُول ﷺ: جب ہم (مسلمان ) ہی مزاجِ رسول اکرم ﷺکو نہیں سمجھیں گے تو دیگر اقوام کو کیسے دعوت دے سکیں گے کہ آئو اسوئہ حبیب ﷺکی طرف !دلہن کے لباس کو ہی لیجیے ،اس میں ہم افراط و تفریط میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں ،رحمتِ عالم ﷺنے سادگی اور میانہ روی کے درس کے ساتھ ساتھ مردوں اور خواتین کی وقتی ضروریات کا بھی پُورا لحاظ رکھا ہے ۔ مدینہ طیّبہ کی وہ دلہنیں جن کے پاس اس خوشی کے موقع پر پہننے کے لیے اچھّا لباس نہ ہوتا ان کی نظریں درِ نبوی ﷺپہ لگی ہوتی تھیں ، وہ بغیر کسی تکلّف کے آپ ﷺکے گھر آتیں یا کسی کو بھیج دیتیں اوربیتِ نبوی ﷺمیں موجود حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک کُر تہ لے جاتیں ،خوشی کے دنوں میں اِسے استعمال کر کے واپس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیش کر دیتی تھیں ۔(41) ؎ نازاں ہوں عنایت پہ شہنشاہ زمنؐ کی بخشی ہے رضا جائزہ فوج سُخن کی خواتینِ اسلام کے لیے اس سے بڑی اور کیا حوصلہ افزائی کی خبر ہوسکتی ہے کہ کاشانہ ٔ نبوّت سے ان کے لیے لباس مہیا کیا جاتا تھا اس طرح آپ ﷺنے جائزاور مناسب زینت کی خود سر پرستی فرمائی ،آپ ﷺکا یہ ذوق تھا کہ کسی مجمع میں جانا ہو ،خوشی کا موقعہ ہو، جمعہ وعید ین کے مناظر ہوں ،مہمان آرہے ہوں تو مردوں کو بھی ’’حتّٰی المقدور‘‘اپنے شرعی لباس میں دیدہ زیب اورخوشنما لباس پہننا ضروری ہے ،اس پس منظرمیں دولہاکے لیے مناسب ملبوسات کی خرید نہ فضول خرچی ہے نہ خلافِ سنّت بلکہ اسے فرامینِ حبیب ﷺکی اطاعت کا نام دیا جائے گا۔