حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
جلوت ،مُسکراتے،ہنستے ،بولتے اور پوچھتے ،پچھاتے رہنے کو زندگی کا حُسن کہاجاسکتاہے ۔یہ حقیقت ہے کہ نرمی ، خوش مزاجی، ہنس مکھ رہنا اورخندہ پیشانی مکارم ِ اخلاق میں سے ہیں ۔آنے والے کا مسکراتے چہرے سے استقبال،خوش طبعی سے ملنا غریب کی مال داری ہے، جس کی وجہ سے وہ دولت مندوں سے بڑھ سکتاہے خوش مزاجی عظیم نعمت ہے ،تبسّم اور سلام کو جمع کرنے ولاشخص صدقے کا ثواب پاتاہے (32) ان سب فضائل کے باوجو د جو شخص ’’تَبسُّم ‘‘سے چند قدم آگے بڑھ کر کھلکھلاکر ہنسناشروع کردیتااور حدِّا عتدال کو بھی عبور کر کے بآواز خوشی کا اظہار کرتاہے تو یہی انمول حُسن متاثّر ہوتاہے ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺبہت زیادہ ہنسے تو صرف یہاں تک کہ (نواجذ)سامنے والے نو کیلے دانت نظر آے،جبڑے کبھی نہ دکھائی دیے (33)اس سے زیادہ آپ ﷺنہ ہنستے تھے ،یہی جمالِ انجمن ہے اور حُسنِ محفل کہ لوگوں کے سامنے انسان مسکرائے اور جب خلوت میں ہو تو سب کچھ بھول جائے ،ایک خدا کو یاد کرے اور اس حقیقت پہ غور کرے کہ یہ دنیا چند دن میں کیا سے کیا ہوجائے گی ؎ بازیچہ ء اطفال ہے دُنیا مِرے آگے ہوتاہے شب وروز تماشامِرے آگے(۶۱)جَمالِ تصوَّرات،حُسنِ ظن،حسنِ عبادت : سید الکائنات علیہ الصّلوات والتّسلیمات فرماتے ہیں :اللہ کی ذات کے متعلّق اچھّا گمان رکھنا (کہ وہ بند ے کی بندگی کو شرفِ قبول بخشے گایہ)عبادت کاحُسن ہے (34) اللہ کے حبیب ﷺنے اپنے ماننے والوں کونماز ،روزہ اخلاق اور انفاق فی سبیل اللہ جیسے کاموں میں خوبصورتی پیداکرنے کا اختیار دے دیا کہ نیک کاموں سے پہلے اور بعد میں اپنے خالق و مالک سے اچھی اور خوب فضل و کرم کی اُمّید رکھو، تا کہ تمہاری عبادتیں حسین ہوجائیں ؎ قلب پاکیزہ نہادودلِ صافی دے کر آئینہ ہم کو بنایا اُمیدِ وافی دے کر اس کے ساتھ یہ حکم ہوا کہ مسلمان اپنے متعلّقین کے بارے میں گمان اچھا کرے ۔جو شخص اللہ سے اچھی اور مثبت امیدیں وابستہ کرتاہے اللہ اس کے حُسنِ خیال کی لاج رکھتے ہیں ۔(۶۲)خوبصورت خواب، حسین تعبیریں اور اچھّی اُمّیدیں : جب انسان سو جاتا ہے ،ظاہری اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اور ایک دوسراعَالَم شُروع ہو جاتاہے ،عَا لَمِ خواب میں حُضور ﷺکی خواہش ہے تو یہ کہ ان کا اُمّتی خواب بھی دیکھے تو ’’اَلرُّئْ یَا الحَسَنَۃ‘‘(اچھّا خواب )دیکھے ،اسے چاہیے