حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
میں بخاری ،جلد ا،ص۱۲۴ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز غسل و نظافت اور خوشبو استعمال کرنے اور آدابِ جمعہ کی رعایت کرکے نماز ادا کرنے والاایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کی مغفرت پالیتاہے ،اللہ کی رحمت سے بعید نہیں کہ وہ عورتوں کو بھی پورااجر دے ،ان تمام روایات سے اندازہ ہوتا ہے نبی اکرم ﷺہر جمعہ کو نظافت حاصل کر لیتے تھے ،جمعہ میں عبادت کا عمل تو بہت کم وقت میں پورا ہو جاتاہے اور نظافت کے اعمال میں بہت وقت لگتاہے ، معلوم ہوا کہ یہ آرائش کا دن ہے ،اس لیے تمام امور ِفطرت جمعہ کے دن اداکر لینے چاہیئں ،تاکہ اس دن کی برکت کے وہ انوارات خواتین اور ان کے بچوں کو بھی حاصل ہو جائیں ،جو حضور ﷺلے کر آئے ہیں ۔ ؎ تاج ہے ختم ِنبوت کا سرِاقدس پر گردانوار ہی انوار نظرآتے ہیں(۲۳)حُسنِ سُنّت،لباس وزینت اور میانہ روی: رسولِ رحمت ﷺکے ذوقِ سلیم کے متعلق بہت کم لوگوں نے افراط و تفریط کے گنبد سے باہر جھانکاہے، اس لیے کسی نے تو سادگی کی حدیثیں بیان کیں اور انسانیِ ضروریات کے تقدّس کو بھی پامال کردیااور کسی نے فضول خرچی کے جواز کی راہ اختیار کی ،جبکہ نبی رحمت ﷺکا طرزِ زندگی درمیانہ تھا۔ایک طرف آپ ﷺنے فرمایا :اے معاذ!نعمتوں میں تکلف کرنے والانہ ہوجانا،اللہ کے بندے نعمتوں کے عادی نہیں ہوتے (30)دوسری طرف ایک شخص آپ ﷺسے پوچھتاہے:مجھے پسند ہے کہ میرے کپڑے دھلے ،سر پہ تیل ،جوتے کا تسمہ نیا ہو(اور کئی باتوں کاذکر کیا کہ حتی کہ اپنے کوڑے کے متعلق پوچھا کہ وہ بھی خوبصورت ہو)تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟آپ ﷺنے فرمایا’’لَاذَاکَ الجَمَالُ اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الجَمَالَ‘‘ (31)’’نہیں یہ تکبر نہیں ،بلکہ جمال ہے ،اللہ خوبصورت ہے اور خو بصورتی کو پسند فرماتاہے ۔دراصل تکبّر یہ ہے کہ انسان حق کو ٹھکرائے اور لوگوں کو ذلیل سمجھے ۔ ؎ تکبّر کی چٹانیں ہیں یہ احسن جو آیا ہے یہاں ٹھہرانہیں ہے دونوں فرامین سے فیصلہ یہ ہوا کہ حسن و جمال اور اچھے ملبوسات آ پ ﷺکو پسند ہیں لیکن آپ ﷺچاہتے ہیں کہ لوگ ان چیزوں کے عادی نہ ہو جائیں کہ ان کے بغیر گزارہ نہ ہو، تکلّف سے کام لیں اورحلال و حرام کی پرواہ نہ کریں ، بلکہ جب اچّھے ملبوسات مل جائیں تو اللہ کے شکر کے ساتھ خو ب پہنیں ،کسی وقت کم قیمت یا پرانے لباس