حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
قریب نہیں جانا چاہیے ورنہ ان کی جدائی تلخ اور قبیح صورت اختیار کرے گی کیونکہ اگر خوشگواری اور امن وسکون کی بنیاد پر تعلّقات حسین ہوجاتے ہیں تو مفاہمت ،اصول اور رواداری کی بنیاد پر جدائیاں بھی حسین ہو جائیں گی طلاق ایک اوررجعی ہوتوواپسی ممکن ہوگی ۔اسی طرح کاروباری ،شراکت داری یادیگر دوستیاں جدائی میں بدلی جاسکتی ہیں ۔محترمانہ اور حسین جدائی کا ایک اہم اثریہ ہے کہ اس میں مشترکہ اور خوشگوارزندگی کی جانب واپسی کاامکان باقی رہتاہے کیونکہ ہو سکتاہے کہ مستقبل میں یہ کاروباری دوست یا زوجین اپنی مشترکہ زندگی کو ازسرِ نو شروع کرنے کے بارے میں سوچیں ؛ایسی صورت میں اگر بداخلاقی کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا ہوئے ہوں گے تو اس کامطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی واپسی کے دروازے خود پر بند کر لیے ہیں اور اگر واپس لوٹ بھی آئیں تب بھی ان کے پاس زندگی گزارنے کے لیے فکری اور محبت آمیز ماحول فراہم نہیں ہے لیکن اگر وہ احترام اور انسانی جذبات کی رعایت کے ساتھ جداہوئے ہوں تو ایک بار پھر کامیاب تعلّقات برقرار کر سکتے ہیں یہی وہ ’’سَرَاحِ جَمیْل‘‘(خوبصورت جدائی ہے )جو حضرت نبی محترم ﷺکے اسوئہ حسنہ کی شکل میں امّت کے لیے نمونہ ہے اور قرآنِ کریم اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر کے دعوتِ عمل دیتاہے کہ باہمی تعلّقات میں بھی اخلاقِ رسول ﷺسے روشنی لینا ہی انسان کے لیے مفید ہے جن کی تابانیوں نے سسکتی ہوئی انسانیت کو نئی اور خوبروزندگی سے متعارف کر ادیا ؎ یہ عمارات یہ مینار یہ گل زاریہ کھیت تو دئہ خاک سے ھستی نے لیا تازہ جنم حضرت نبی مکرم علیہ السّلام کے اپنے گھرمیں ایسے حالات بنے کہ بیک وقت نو بیویوں سے علیحدگی کی بات کرنا پڑی ،اس صبر آزما اور مشکل ترین مرحلہ کو آپ ﷺنے کیسے خوبصورت بنایا،آئندہ سطور کا مطالعہ اس کا جواب دے گا۔(۵۵)آئو تمہیں خوبصورت طریقے سے رخصت کروں : یہ دنیا خوشیوں اورغموں سے مرکّب ہے اور ہر مسلمان کی حیاتِ مستعار میں یہ دونوں حالتیں آتی ہیں ۔اس میں محبت سے لوگ ملتے بھی ہیں اور جدا بھی ہوتے ہیں ،دوستیاں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ، لیکن سب سے بڑے عقل مند انسان حضرت محمد کریم ﷺکی شان ہے کہ آپ ﷺہر پسندیدہ وناپسندیدہ فعل کو اس طرح کرنے کی صورت بتاتے اور کرتے رہے کہ انسان مزید نقصانات سے بچ جائے ۔ایک دن آپ ﷺکو معلوم ہوا کہ ان کی