حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
امت کی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں اللہ کے رسول ﷺنے اپنے امتیوں پر شفقت اور مہربانی کرتے ہوئے لگاتار (نفل) روزوں سے منع فرمایا(4)تاکہ دیگر فرائض اور کارِ دنیا میں حرج نہ ہو۔جو امتی آپ ﷺکو پہچانتاہے ، وہ یہ نہیں کہ سکتاکہ محمّد ﷺکا کوئی حکم سختی پہ مبنی ہے ،بھلاجو نبی نماز میں بچے کی آواز سنے اور عبادت مختصرکردے (5)ہر نماز میں مسواک کا حکم اس وجہ سے نہ دے کہ اس کے ، ماننے والے مشکل میں نہ پڑ جائیں (6)نمازِ عشاء کو اُمّت کی آسانی کے لیے جلدی ادا کرے (7)تو اس کریم و مہربان نبی اور مربیُّ مشفق سے یہ بات کیسے منسوب کی جائے کہ انہوں نے مشکل احکام دیے ہیں یا ان کی سنّت میں یہ صلاحیّت نہیں ہے کہ کے تقاضوں کو پورا کرے یا ان کے اخلاق و اقدار تو صرف عربوں تک محدود تھے ، اب زمانہ ترقی کر چکا ہے ،تمدّن اور ثقافت کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ چلی گئی ہے ۔اللہ نہ کرے ایک مسلمان ایسا سوچے اسے اس کے بر خلاف سوچنا ہے کہ میرے نبی ﷺکی ہرادا ہر زمانے کی قیادت کے لیے روشن مینار ہے ، ا س میں دل کشی و را عنائی ہے اور آپ ﷺکی حسین و جمیل عادات ہی حُسنِ انسانی کے دوام کی ضمانت دیتی ہیں ، انہوں نے جو کیا ، کہا اور حکم دیا سووہ وحی ٔالٰہی کی روشنی ہے ؎ وفورِ شوق میں جب بھی کلام کرتے ہیں تو حرف حرف کو حُسنِ تمام کرتے ہیں(۱۴) اھتمام ِزینت ،مختصر زادِ سفر اور سامانِ آرائش: آقائے نامدار ﷺکے اہتمام ِ زینت کا عالم تو یہ تھا کہ سامانِ آرائش سوتے وقت بھی ساتھ رکھتے تھے ، نبی اکر م ﷺکی مبارک زندگی تو حضر میں بھی تکلفات سے خالی ہے ، پھر سفر میں آپ ﷺکا سامان کتنا کم ہو تاہو گا ؟ لیکن اس کے باوجود آپ ﷺآرائش و زیبائش کا سامان اپنے مختصر زادِ سفر میں بھی رکھ لیا کرتے تھے ۔آج بھی کوئی یہ اہتمام کر لے تو اسے سنت پر عمل کا ثواب ملتاہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺسفر اور حضر میں ان چیزوں کوچھوڑتے نہیں تھے ضرور رکھتے تھے۔(ا) آئینہ (۲)سرمہ دانی (۳) کنگھا(۴) مسواک(۵) کھجانے کی ایک لکڑی (جس سے بوقتِ ضرورت کھجاتے تھے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی ایک روایت میں آئینہ،سرمہ دانی ،کنگھی ،مسواک اور تیل کا ذکر ہے (8)کس قدر خوبصورت تخیّل ہے اور کتنا بر محل اہتما م ِآرائش ہے کہ سفر میں بھی سامانِ زینت ساتھ رہے ۔ اگر احساسِ ضرورت پر غور کیاجائے تو دل فیصلہ دے