حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
برقع کو ہی سنت سمجھنا بدعت ہے ،اس قسم کی بے شمار بے اعتدالیاں دین کے نام پر سامنے آرہی ہیں ۔جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔(۲۹)قیمتی کپڑے ،عاجزی اور صفائی: میلالباس ہمارے نبی مکرّم ﷺکو پسند نہ تھا۔ ایک دن آپ ﷺنے کالے رنگ کاجبّہ پہنا پسینہ آیا تو اتار دیا ،آپ ﷺجمعہ ، عیدین اور نمازوں کے لیے لباس کی ستھرائی کاخاص خیال رکھتے تھے ،ایسا نہ کرنے والے شخص کوپسندنہ فرماتے تھے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺہمارے ہاں ملاقات کے لیے آئے (راستہ میں ) آپ ﷺنے ایک شخص کومیلے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا :کیا اس کو (صابن وغیرہ جیسی )وہ چیز نہیں ملتی جس سے یہ اپنے کپڑے کو دھو لیتا(یعنی جب اس کو وہ چیزیں میسر ہیں تو پھر اس نے اپنے کپڑوں کو میلا کیوں رکھا ہے؟(57)معلوم ہوا کہ اللہ کا دیا ہو تو صفائی میں سستی کرنا نہ اللہ کو پسند ہے اور نہ حضور ﷺکو منظورہے ۔ لباس قیمتی ہو یا کم قیمت بہر حال اس کی صفائی ضروری ہے اس سے آگے کا بھی ایک درجہ ہے کہ ابو رجائی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما ہمارے پاس آئے وہ اون اور ریشم سے بنی ہو ئی (قیمتی )چادر اوڑھے ہو ئے تھے (ریشم صرف تانے میں ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتا اس لیے اس کا استعمال جائز ہے ) اور اس قیمتی چادر کے اوڑھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس شخص کو اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطافرمائیں تو اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اس کے بندے پر اس کی (دی ہوئی ) نعمت کا اثر نظر آئے (58)ایک بندہ صرف اس وجہ سے اپنے حلال رزق میں سے اچھا لباس بناتاہے ،بنانے والے کو بھی سنت ِرسول کے مطابق بنانے کاکہتا ہے ،پھر دائیں طرف سے پہنتاہے اور دعا پڑھتاہے ،دل میں یہ تصوّر ہوتاہے کہ یہ میرے اللہ کی نعمت ہے ، میرااللہ مجھے اس حال میں دیکھ کر خوش ہو رہا ہے تواس تصورسے انسان کو کتنی بڑی خوشی ملتی ہے ۔ ؎ کرتی جاتی ہے سرایت جان وتن میں ان کی یاد رفتہ رفتہ جانے کیا سے کیا ہواجاتاہوں میں ایسے ماحول میں جب کہ فخر و غرور اور نمائش کا راج ہو،کچھ اللہ کے بندے صرف اس وجہ سے کہ سادگی کا نام ہی صفحہ ہستی سے مٹتاجارہاہے ،اگر کم قیمت ،صاف ستھرالباس بھی پہن لیں تو اس شخص کو حضور ﷺنے اجازت دی ہے ،مثلاً:ایک صحابی کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا :جس نے (زینت و )جمال کے کپڑے پہننا(محض اللہ کے